• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 57758

    عنوان: حادثہ کی موت ہوئی تو کیا شہید کا مرتبہ ملتاہے یا نہیں اور شہید کا مرتبہ کس کس کو ہے؟

    سوال: حادثہ کی موت ہوئی تو کیا شہید کا مرتبہ ملتاہے یا نہیں اور شہید کا مرتبہ کس کس کو ہے؟

    جواب نمبر: 57758

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 198-198/Sd=5/1436-U جو شخص اعلائے کلمة اللہ کے لیے اپنی جان قربان کردے، یا اسے ظالموں (چور، ڈاکو وغیرہ) نے ظلما قتل کردیا ہو، ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں حقیقی شہید کہلاتا ہے، جس پر دنیا وآخرت دونوں جہاں میں شہادت کے احکام جاری ہوتے ہیں اور جس شخص کی وفات کسی حادثے میں ہو مثلاً: آگ سے جل کر یا پانی میں ڈوب کر یا کسی جگہ سے گرکر وغیرہ وغیرہ تو وہ آخرت کے اعتبار سے تو شہید کہلائے گا لیکن دنیا میں اس پر شہادت کے احکام جاری نہیں ہوں گے، اخروی اعتبار سے شہادت کا مرتبہ پانے والوں کی بہت سی قسمیں ہیں، علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے تیس قسم کے افراد شمار کرائے ہیں، بعض نے چالیس اور بعض نے پچاس سے زیادہ قسم کے افراد کی تعیین کی ہے۔ قال ابن عابدین: ”قید بالقتل“؛ لأنہ لو مات حتف أنفہ أو ابترد أو حرق أو غرق أو ہدم، لم یکن شہیدا في حکم الدنیا وإن کان شہید الآخرة․ وقال: قولہ ”في الشہید الکامل“ وہو شہید الدنیا والآخرة، وشہادة الدنیا بعدم الغسل إلا لنجاسة أصابتہ غیر دمہ، وشہادة الآخرة بنیل الثواب الموعود للشہید۔ والمراد بشہید الآخرة: من قتل مظلومًا أو قاتل لإعلاء کلمة اللہ تعالی حتی قتل․ وقال الحصکفي: وکذا الغریق والحریق والمہدوم علیہ․ وقد عَدَّہم السیوطي نحو الثلاثین․ قال ابن عابدین: قد نظم ما قالہ السیوطي العلامة الشیخ علی الأجہودی․ وذکر نحو الثلاثین أیضًا لکنہ زاد علی ما ہنا․ وبذلک زادت علی الأربعین وقد عَدَّہا بعضہم أکثر من خمسین، وذکرہا الرحمتي منظومة․ (الدر المختار مع رد المحتار: ۳/۱۴۷-۱۵۵، باب الشہید، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت، وکذا في حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ص: ۱۲۸، باب أحکام الشہید)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند