• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 5706

    عنوان:

    مفتی صاحب میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک مفتی صاحب دارالافتاء کے جنھوں نے سوال و جواب کے اجلاس میں یہ فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے خوش اور رنجیدہ بھی ہوتے ہیں، اگر یہ حقیقت ہے تو آپ ہی کے ایک مفتی نے ایسا کیوں لکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر نہیں، چلیں فی الحال حلقہ کو چھوٹا کرکے مسلمانوں تک محدود کر لیتے ہیں، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر امتی سے باخبر نہیں؟ خوش اور رنجیدہ ہونے کا مطلب تو یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باخبر ہیں، اور حاضر و ناظر بھی ہیں... اول و آخر والی صفات اللہ کی ہیں، اور یہ صفات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ ہی نے عطا فرمائی ہیں۔

    سوال:

    مفتی صاحب میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک مفتی صاحب دارالافتاء کے جنھوں نے سوال و جواب کے اجلاس میں یہ فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے خوش اور رنجیدہ بھی ہوتے ہیں، اگر یہ حقیقت ہے تو آپ ہی کے ایک مفتی نے ایسا کیوں لکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر نہیں، چلیں فی الحال حلقہ کو چھوٹا کرکے مسلمانوں تک محدود کر لیتے ہیں، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر امتی سے باخبر نہیں؟ خوش اور رنجیدہ ہونے کا مطلب تو یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باخبر ہیں، اور حاضر و ناظر بھی ہیں... اول و آخر والی صفات اللہ کی ہیں، اور یہ صفات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ ہی نے عطا فرمائی ہیں۔

    جواب نمبر: 5706

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 805=764/ د

     

    حاضر و ناظر سے مراد ایسی ذات ہوتی ہے جس کا وجود ہرایک شے کو محیط ہو اور ہرایک چیز کے تمام احوال اول سے آخر تک اس کی نظر میں ہوں. حاضر و ناظر کا یہ مفہوم صرف اللہ رب العزت پر صادق آتا ہے وہی عالم الغیب والشہادة ہے۔ آپ کا یہ دعویٰ کہ یہ صفات اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عطا فرمائیں، محتاجِ دلیل ہے۔ اور دلیل بھی ایسی ہونی چاہیے جو ثبوت اور دلالت دونوں کے اعتبار سے قطعی اور یقینی ہو۔ عقائد کے باب میں ظنّیات و قیاسات قابل قبول نہیں ہوتے۔ آپ کا اس بات سے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے خوش اور رنجیدہ بھی ہوتے ہیں یہ دلیل پکڑنا کہ آپ حاضر و ناظر ہیں، بے جا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من صلّی عليّ عند قبري سمعتہ، ومن صلی عليّ نائیًا أُبلغتُہ رواہ البیھقي في شعب الإیمان )مشکاة( کہ جو شخص میری قبر کے پاس مجھ پر درود بھیجتا ہے، میں اسے سنتا ہوں اور جو شخص دور سے بھیجتا ہے مجھے وہ درود پہنچایا جاتا ہے۔ مشکاة کی دوسری حدیث میں صراحت ہے کہ پہنچانے والے فرشتے ہوتے ہیں۔ ان دونوں حدیثوں سے صاف ظاہر ہے کہ حضور کو دور کی اطلاع براہِ راست نہیں ہوتی بلکہ فرشتوں کے واسطے سے ہوتی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند