عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 56951
جواب نمبر: 56951
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 226-217/N=3/1436-U (۱)
لڑکے والے شادی سے پہلے جو عمومی دعوت کا نظم کرتے ہیں یہ منڈھا کی رسم ہے جو درحقیقت ہندوانہ رسم ہے، پس اگر یہ منڈھا ہی ہے تو یہ دعوت ناجائز ہے، اور اس میں شرکت نہ کرنی چاہیے، حدیث میں ہے: من تشبہ بقوم فہو منہم (مشکاة شریف ص: ۳۷۵، بحوالہ مسند احمد وسنن ابی داوٴد) قولہ: ”من تشبہ بقوم“ ہذا عام فيالخلق والخلق والشعار، وإذا کان الشعار أظہر في التشبہ ذکرہ في ہذا الباب (شرح الطیبي علی المشکاة ص: ۲۹۰۱، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفی الباز مکة المکرمة) اورنکاح کے بعد لڑکے والوں کی طرف سے جو دعوت کا نظم ہوتا ہے یہ ولیمہ ہے جو مسنون ہے، بشرطیکہ منکرات وخرافات وغیرہ سے خالی ہو۔ (۲) جی ہاں! نکاح کے بعد ولیمہ کے نام پر تین دن تک دعوت کھلاسکتے ہیں، بشرطیکہ ریا و نمود مقصود نہ ہو نیز منکرات وخرافات اوراسراف سے پرہیز کیا جائے، اس کے بعد نہیں: ولا بأس بأن یدعو یومئذ ومن الغد وبعد الغد ثم ینقطع العرس والولیمة کذا في الظہیریة (فتاوی عالمگیری: ۵/ ۳۴۳ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) (۳) اگر یہ منڈھے کی رسم ہے تو اس میں شرکت نہ کرنی چاہیے۔ (۴) اکر دعوت ولیمہ میں منکرات وخرافات وغیرہ نہ ہوں، نیز مالداروں کی طرح غریبوں کو بھی مدعو کیا جائے تو ولیمہ میں اعلی پیمانہ پر بھی دعوت جائز ہے، البتہ افضل یہ ہے کہ شادی بیاہ میں بہت زیادہ پیسے خرچ نہ کیے جائیں، حدیث میں ہے: إن أعظم النکاح برکة أیسرہ موٴونة (مشکاة شریف ص: ۲۶۸، بحوالہ شعب الإیمان للبیہقي) (۵) اگر لڑکے والوں نے لڑکی والوں کو اپنے یہاں بلایا ہے تو ان کے لیے جملہ انتظامات لڑکے والوں کو کرنا چاہیے، اور اگر لڑکی والے اپنی مرضی سے آرہے ہیں تو وہ اپنے انتظامات خود کریں البتہ لڑکے والے اگر ولیمہ پر مدعو کریں تو وہ ان کے دسترخوان پرولیمہ کھاسکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند