عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 53166
جواب نمبر: 53166
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1325-1325/M=11/1435-U یہ بات ثابت ہے کہ حضرت حواء حضرت آدم علیہ السلام کی زوجہ ہیں، متعدد آیات میں حضرت آدم اور ان کی زوجہ کا ذکر ہے یَا آدمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الجَنَّةَ الآیة (بقرة: ۳۵) وسورہٴ (نساء: ۱۰) وسورہٴ اعراف: ۱۸۹) اور یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی صلبی اولاد کے درمیان ایک بطن کا دوسرے بطن سے نکاح جائز تھا، جب حضرت آدم وحواء دنیا میں آئے اور توالد وتناسل کا سلسلہ شروع ہوا تو ہرایک حمل سے ان کے دو بچے تَواَمین پیدا ہوئے ایک لڑکا اور دوسری لڑکی اس وقت جب کہ آدم علیہ السلام کی اولاد میں بجز بہن بھائیوں کے کوئی اور نہ تھا، اور بھائی بہن کا آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت کی ضرورت کے لحاظ سے شریعت آدم علیہ السلام میں یہ خصوصی حکم جاری فرمایا تھا کہ ایک حمل سے جو لڑکا اور لڑکی پیدا ہو وہ آپس میں حقیقی بہن بھائی سمجھے جائیں اور ان کے درمیان نکاح حرام ہوگا لیکن دوسرے حمل سے پیدا ہونے والے لڑکے کے لیے پہلے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی حقیقی بہن کے حکم میں نہیں ہوگی، بلکہ ان کے درمیان رشتہٴ مناکحت جائز ہوگا (مستفاد: معارف القرآن)، اور یہ کہیں ثابت نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی بیٹی کے ساتھ یا حضرت حواء نے اپنے بیٹے کے ساتھ یا ایک حمل سے پیدا شدہ بھائی بہن نے آپس میں ہمبستری کی ہو، ایسا کہنا یا اعتقاد رکھنا بے بنیاد،غلط، ناجائز اور نصوص کے خلاف ہے، اور اس غیرمسلم کا یہ کہنا ”یہ جو رسمیں ہیں کہ بھائی بہن سے جماع نہیں کرسکتی اور ماں بیٹے سے، یہ سب انسان کی بنائی ہوئی ہیں“ یہ سراسر غلط اورجاہلانہ ہے، اور یہ قانون کہ ”بہن بھائی سے اور ماں بیٹے سے جماع نہیں کرسکتی“ یہ انسان کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کا حکم وقانون ہے، حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت میں ضرورت توالد وتناسل کی وجہ سے یہ جائز تھا اس کے علاوہ اور کوئی شکل نہ تھی اس کو اللہ تعالیٰ نے اُس وقت جائز فرمایا تھا، بعد میں یہ خاص شکل کی ضرورت باقی نہ رہنے کی وجہ سے شریعت میں غیرِ آدم میں حکم کو منسوخ کردیا گیا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند