• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 53113

    عنوان: زیارت قبور سے متعلق چند سوالات

    سوال: (۱) زیات کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ (۲) کیا صاحب قبر اپنی قبر پہ آنے والے شخص کو پہنچانتا ہے ؟ یا اس کو خبر ہوجاتی ہے کہ قبر پہ کون آیا ہے؟ (۳) کیا قبر پہ جاکر سلام کرنا درست ہے، جب کہ سماع موتی کا مسئلہ ہی مختلف فیہ ہے؟

    جواب نمبر: 53113

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 953-324/L=8/1435-U زیارت قبور کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ قرستان جاکر اولاً یہ دعا پڑھے السلام علیکم دار قوم موٴمنین، وإنا إن شاء اللہ بکم لاحقون․ پھر قرآن شریف میں سے جو آسان معلوم ہو سورہٴ فاتحہ، سورہٴ یاسین، قل ہو اللہ احد وغیرہ پڑھ کر اس کا ثواب میت کو پہنچادے۔ ولا بأس بزیارة القبور․․․ ویقول: السلام علیکم دار قوم موٴمنین، وإنا إن شاء اللہ بکم لاحقون ویقرأ یٰسین، وفي الحدیث: من قرأ الإخلاص أحد عشر مرة ثم وہب أجرہا للأموات أعطی من الأجر بعدد الأموات، وفي الشامیة: وفي شرح اللباب: ویقرأ من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحة وأول البقرة إلی المفلحون وآیة الکرسي․․ وسورة یسین و سورة الإخلاص اثنی عشرة مرة أوعشرا أو سبعا أو ثلاثا ثم یقول: اللہم أوصل ثواب وما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم (شامي زکریا ۳/۱۵۰-۱۵۱) (۲) اللہ تعالی میت کو مطلع کردیتے ہیں کہ فلاں شخص اس کی زیارت کے لیے آیا ہے۔ قال ابن القیم: الأحادیث والآثار تدل علی أن الزائر حین جاء علم بہ المزور وسمع سلامہ وأنِس بہ وردّ علیہ عامٌّ في حق الشہداء وغیرہم وأنہ لا توقیت في ذلک (حاشیة الطحطاوي علی المراقي: ۳۴۰) (۳) قبر پر جاکر میت کو سلام کرنا احادیث سے ثابت ہے، لہٰذا سماع موتی کے سلسلہ میں اختلاف سے اس کی سنیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، نیز راجح قول کے طابق سماع موتی اذن خداوندی ممکن ہے لہٰذا میت کا زائر کے سلام کو سن لینا مستبعد نہیں ہے۔ عن ابن عباس رضي اللہ عنہما قال مر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقبور المدینة فأقبل علیہم بوجہہ، فقال: السلام علیکم یا أہل القبور یغفر اللہ لنا ولکم أنتم سلفنا ونحن بالأثر (سنن الترمذي ۱/۲۰۳) عن أبی ہریرة قال: إذا مر الرجل بقبر أخیہ بعرفہ فسلّم علیہ رد علیہ السلام وعرفہ، وإذا مر بقبر لا یعرفہ، فسلم علیہ رد علیہ السلام (کتاب الروح ص: ۱۲) (فتاوی محمودیہ ۱/۵۷۱) ومن أشہر ذلک ما رواہ ابن عبد البر مصححا لہ عن ابن عباس -رضي اللہ عنہما- مرفوعًا: ما من أحد یمر بقبر أخیہ المسلم کان یعرفہ في الدنیا فیسلم علیہ إلا ردّ اللہ علیہ روحہ حتی رد علیہ السلام (تفسیر ابن کثیر روئة الروم آیت: ۵۳)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند