• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 52035

    عنوان: ایک عقیدہ ھے کے حضرت محمد عطا کر سکتے ھیں مگر وہ عطا کرتے ھیں تو اللہ کی عطا سے عطا کرتے ھیں ۔ کیا فرماتے ھیں علماء دیوبند اس بارے میں۔

    سوال: ایک عقیدہ ھے کے حضرت محمد عطا کر سکتے ھیں مگر وہ عطا کرتے ھیں تو اللہ کی عطا سے عطا کرتے ھیں ۔ کیا فرماتے ھیں علماء دیوبند اس بارے میں۔

    جواب نمبر: 52035

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 702-252/L=6/1435-U اگر مذکورہ عقیدہ کا مفہوم یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رزق اولاد وغیرہ عطا کرنے کا اختیار دے دیا ہے جس کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس کو جو چیز چاہیں عطا کرسکتے ہیں تو یہ عقیدہ درست نہیں ہے، اس لیے کہ یہ اختیار صرف اور صرف اللہ رب العزت کو ہے، البتہ اگر یہ مطلب ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم سے کسی کو کوئی چیز عطا کرتے ہیں تو یہ عقیدہ درست ہے، اس لیے کہ اس صورت میں عطا درحقیقت اللہ ہی کی طرف سے ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم کو نافذ کرنے والے ہیں، جیسے مال غنیمت تقسیم کرنا وغیرہ نیز اگر یہ مطلب ہو کہ اللہ تعالی نے آپ کو جو چیزیں عطا کی ہیں ان میں سے کسی کو کچھ دے سکتے ہیں تو یہ عقیدہ بھی درست ہے۔ قال النبي علیہ السلام: وإنما أنا قاسم واللہ یعطي: قال العینی: الحصر بالنسبة إلی اعتقاد السامع وہذا ورد في مقام کان السامع معتقدا کونہ معطیا ․․․ فیکون معناہ: ما أنا بقاسم إلا في حال إعطاء اللہ لا في حال غیرہ․․․ قولہ: واللہ یعطي: فیہ تقدیم لفظ ”اللہ“ لإفادة التقویة عند السکاکي ولا یحتمل التخصیص أي اللہ یعطي لا محالة وأما عند الزمخشري فیحتملہ أیضًا، وحینئذٍ یکون معناہ: اللہ یعطي لا غیر (عمدة القاري: ۲/۵۲)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند