عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 46425
جواب نمبر: 46425
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 965-195/D=9/1434 یہ دنیا عالم اسباب ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے نتائج کو اسباب سے مربوط فرمایا ہے اور ان اسباب سے مراد اسباب ظاہرہ ہیں،جیسے کھانا کھانے سے بھوک کا ختم ہونا، دوا سے مرض کا ازالہ ہونا، ملازمت زراعت تجارت کے ذریعہ کسب معاش کرنا انسان دارالاسباب میں ان اسباب ظاہر کے اختیار کرنے کا مکلف ہے اور اسباب ظاہرہ کا ترک عام انسان کے لیے جائز نہیں، بلکہ عبدیت کے تقاضہ سے ضروری ہے، کسب الحلال فریضة بعد الفرائض سے مراد انھیں اسباب ظاہرہ کا اختیار کرنا ہے، یہ الگ بات ہے کہ دعا اور انابت الی اللہ سے ان اسباب کی تاثیر قوی ہوجاتی ہے، لیکن کسی نتیجہ کے سبب ظاہر کو ترک کرکے صرف دعا اور انابت الی اللہ کے کام پر اتکال کرنا ہم جیسے موٴمنین (عامة الموٴمنین) کے لیے جائز نہیں، یہ یعنی سبب ظاہر کا ترک کرکے روحانی اعمال پر اتکال کرنا اعلی درجہ کے موٴمنین کا حال ہوتا ہے، ہرشخص کو اس کی ریس نہیں کرنی چاہیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سنت طریقہ اسباب ظاہر کے اختیار کرنے کا ہے؛ لہٰذا دعوت کا طریقہ بھی وہی ہونا چاہیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ؛ البتہ اسبابِ ظاہرہ اختیار کرنے کے ساتھ نظر مسبب الاسباب پر رکھنا چاہیے، یقین اسباب پر نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر ہونا چاہیے کہ اسبابِ ظاہر میں تاثیر پیدا کرنے والی ذات اللہ کی ہے۔ حاصل یہ ہوا کہ کسب معاش کے ظاہری (مادی) اسباب کے ساتھ روحانی (دعا انابت الی اللہ کے اعمال) اسباب بھی اختیار کرنا ضروری ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں روحانی اسباب (دعا وغیرہ) کے ساتھ ظاہری (مادی) اسباب کا اختیار کرنا بھی ضروری ہے، یہی شریعت کی تعلیم اور سنت نبوی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند