عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 44182
جواب نمبر: 44182
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 452-408/D=4/1434 (۱) جو پیش گوئیاں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث صحیحہ میں فرمائی ہیں وہ قطعی طور پر حق اور سچ ہیں، اور اخبار میں پیشین گوئیوں کے نام سے جن باتوں کا ذکر ہوتا ہے ظاہر ہے کہ وہ قرآن وحدیث کی پیشین گوئیاں نہیں ہیں، کیونکہ مثلاً قرآن وحدیث میں 2012 کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس لیے اس کی بنیاد پر یہ سمجھ بیٹھنا کہ قیامت نہیں آئے گی، کم فہمی اورغلط بات ہے، اس سے متأثر ہوکر آپ کی بیوی نے جو جملہ کہا ہے اگرچہ کفریہ جملہ ہے، لیکن چونکہ اخباری خبروں کے غلط ہونے کی بنیاد پر کہا ہے نہ کہ قرآن وحدیث کی پیشین گوئیوں ے غلط ہونے ہونے کی بنیاد پر، اس لیے اسلام سے خارج ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا، البتہ احتیاطاً تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرلینا چاہیے۔ من أنکر القیامة أو الجنة أو النار أو المیزان أو الصراط أو الصحائف المکتوبة فیہا أعمال العباد یکفر (ہندیہ: ۲/۲۷۴) إذا کان في المسئلة وجوہ توجب الکفر، ووجہ واحد یمنع فعلی المفتي أن یمیل إلی ذلک الوجہ، کذا في الخلاصة (ہندیہ: ۲/۲۸۳) (۲) یہ کفریہ جملہ ہے، لیکن چونکہ رنج وغم کی حالت میں کہا ہے اس لیے خارج عن الاسلام ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا کیونکہ ایسے حادثہ کے موقع پر کبھی دماغی توازن برقرار نہیں رہتا ہے لیکن احتیاطا تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرلینا چاہیے۔ من نسب اللہ تعالیٰ إلی الجور فقد کفر (ہندیہ: ۲/۲۵۹) لم یکن الارتداد، وکذا لو کان معتوہا أو موسوسا أو مغلوبا علی عقلہ بوجہ من الوجوہ فہو علی ہذا، کذا في السراج الوہاج (ہندیہ: ۲/۲۵۲) بہرصورت اس طرح کے جملے کہنے سے احتراز کیا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند