عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 43477
جواب نمبر: 43477
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 215-170/D=2/1434 (۱) ”غیب“ لغت اور عرف میں ایسی چیزوں کے لیے بولا جاتا ہے جو نہ بدیہی طور پر انسان کومعلوم ہوں اور نہ انسان کے حواس خمسہ اس کا پتہ لگاسکیں، اس میں کائنات میں ہونے والے تقلبات اور پیش آنے والے حوادث سب شامل ہیں۔ اور قرآن کریم میں لفظِ ”غیب“ سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جن کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور ان کا علم بداہت عقل اورحواس خمسہ کے ذریعہ نہیں ہوسکتا جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات، تقدیری امور، جنت ودوزخ کے حالات وغیرہ (ملخص معارف القرآن: ۱/۵۶) (۲) استفتاء میں مذکور عقیدہ صحیح ہے؛ لیکن جزء ثانی میں یہ قیود ملحوظ رہے کہ انبیائے کرام اور اولیاء اللہ کو خبر غیب کا بتلانا اللہ تعالیٰ پر لازم وضروری نہیں؛ بل کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر ہے اگر چاہے تو بتلائے اگر نہ چاہے تو نہ بتلائے نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام اخبارِ غیبیہ سے ان کو آگاہ وواقف کرے؛ بل کہ جزوی چیزیں بھی بتلاسکتا ہے؛ لیکن بہرحال ”عالم الغیب“ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند