• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 26015

    عنوان: مسلمانوں کے دوعقیدے ہیں، (۱) اللہ اپنے بندوں سے 70/ گنا زیادہ محبت کرتا ہے، (۲) جب انسان اپنی ماں کے پیٹ ہی میں ہوتاہے تب فرشتے اللہ کے حکم سے اس انسان کی قسمت میں ’بد بخت‘ یا ’خوش بخت‘ لکھ دیتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ جس بندے کی تقدیر میں اللہ کے حکم سے ’بدبخت‘ لکھا گیا ہے ، اس انسان سے اللہ ماں سے 70/ گنا زیادہ محبت کرنے والا کیسے ہے؟براہ کرم، تفصیل سے جواب دیں۔ 

    سوال: مسلمانوں کے دوعقیدے ہیں، (۱) اللہ اپنے بندوں سے 70/ گنا زیادہ محبت کرتا ہے، (۲) جب انسان اپنی ماں کے پیٹ ہی میں ہوتاہے تب فرشتے اللہ کے حکم سے اس انسان کی قسمت میں ’بد بخت‘ یا ’خوش بخت‘ لکھ دیتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ جس بندے کی تقدیر میں اللہ کے حکم سے ’بدبخت‘ لکھا گیا ہے ، اس انسان سے اللہ ماں سے 70/ گنا زیادہ محبت کرنے والا کیسے ہے؟براہ کرم، تفصیل سے جواب دیں۔ 

    جواب نمبر: 26015

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 1563=1187-11/1431

    (۱) جو کچھ امور ظہور پذیر ہونے والے ہیں یا جو کچھ انجام کار ہوتا ہے ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم محیط کی بنا پر پہلے سے لوح محفوظ میں لکھ دیا، اسی کو تقدیر کہتے ہیں، بچہ کے ماں کے پیٹ میں ہونے کی حالت میں فرشتہ کے ذریعہ اسی نوشتہ تقدیر کی تثبیت ہوتی ہے۔
    (۲) اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل کی دولت عطا فرمائی، ارادہ واختیار کی قدرت دی، پھر ہدایت وراہنمائی کے لیے انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا، پھر بھی انسان خلاف عقل سلیم اور خلاف ہدایت مرسلین گمراہی وبے راہ روی کا طریقہ اپنے ارادہ واختیار سے اپناتاہے جس کا انجام جہنم ہوتا ہے جو شقاوت وبدبختی کی آخری منزل ہے، جسے بدبخت انسان نے خود اپنے عمل واختیار سے اپنایا۔
    (۳) اولاد آدم کے ساتھ محبت الٰہی کا کیا ٹھکانا ازل سے ابد تک بے انتہا اس کے مظاہر ہیں، پیدائش سے قبل اور بعد ظاہری وباطنی نعمتوں اور نوازشوں سے سرفراز فرمانا، ہدایت واستقامت کے لیے انبیاء ومرسلین کو مبعوث فرمانا، ملک وملکوت میں اس کے لیے بے شمار ذرائع پیدا فرمانا۔ قدم قدم کی ٹھوکریں وقت وقت میں ابتلاء وآزمائش کی گھڑیاں زندگی میں کبھی غربت وافلاس، کبھی تونگری وخوشحالی، کبھی مرض کبھی صحت یہ سب امور راہ راست پر لانے کے لیے الارم اور گھنٹیاں تھیں ان سب کے باوجود اس نے اپنی پسند سے راہ جہنم تجویز کیا، ہادی خیر کو نہ پہنچانا، منادی خیر کی طرف کان نہ دھرا، اور اپنی تجویز کردہ راہ جہنم پر جما اور ڈٹا رہا حتی کہ موت آگئی، بدبختی اس نے خود اختیار کی اپنے اختیار و مرضی سے اسے اپنائے رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم محیط کی بنا پر اس کی اختیاری بدبختی کو پہلے سے لکھ دیا، یا فرشتوں سے اس کی تثبیت فرمادی، اس میں اس محبت الٰہی کا قصور نہیں، قصور اس بدبخت وبدنصیب کا ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی داخل جہنم ہونے والے کو اللہ تعالیٰ کی محبت یا انصاف میں کمی کی شکایت نہ ہوگی، بلکہ کھلے لفظوں میں اپنے ہی قصور کا اعتراف ہوگا۔ 
    اضافہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کا سوال ایک عورت نے کیا تھا حیث قالت ألیس اللہ بأرحم بعبادہ بولدہا قال صلی اللہ علیہ وسلم بلی قالت أن الأم لا تلقي ولدہا فی النار فأکب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یبکي ثم رفع رأسہ إلیہا فقال إن اللہ لا یعذب من عبادہ إلا الماردَ المتمرِّدَ الذي یتمردُ علی امہ وأبی أن یقول لا إلٰہ إلا اللہ رواہ ابن ماجہ عن عبد اللہ بن عمر کذا في المشکاة پس عباد دو قسم کے ہوئے ایک مرحومین اوران پر اس قدر رحمت ہے کہ والدکو ولد پر نہیں، دوسرے غیرمرحومین سو ان پر آخرت میں رحمت ہی نہ ہوگی۔ کذا في امداد الفتاویٰ: ۵/۷۴۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند