• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 21615

    عنوان:

    سنا ہے کہ گناہ کو اگر کوئی گناہ نہ سمجھے تو انسان کافر ہوجاتا ہے، کیا میں نے ٹھیک سنا ہے، گذارش یہ ہے کہ ہم جیسوں سے گناہ ہوتے ہیں اور گناہ کو عقیدہٴ گناہ بھی سمجھتے ہیں یعنی یہ بری بات ہے اس سے الہ ناراض ہوتے ہیں، اگر اللہ نے چاہا تو عذاب بھی ہوگا لیکن اس کے ساتھ بعض گناہوں سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں اور جی بھی گناہ کی لذت سے لطف اندوز اور خوش ہوتا ہے، کیا اس حالت میں ہم خدا نخواستہ کافر ہوجاتے ہیں؟ اس پوچھنے کا منشاء یہ ہے کہ شیطان ہمیشہ کفر کا فتویٰ جاری کرتا ہے جس کی وجہ سے پریشان ہوں۔ (۲) دوسرا سوال یہ ہے کہ دوسروں کے گناہ اور کفر پر راضی ہونے کا کیا مطلب ہے، سنا ہے اگر ان کے گناہ یا کفر پر راضی ہوجاوٴں تو گناہ کی صورت میں گناہ اور کفر کی صورت میں کافر بن جاتا ہوں، کیا یہ صحیح ہے؟ اگر ہے تو اس کا کیا مطلب ہے۔ میں تو ان کے کفر کو بھی برا سمجھتا ہوں اور گناہ کو بھی باقی دل کہتا ہے کہ دل میں تکلیف اور درد پیدا کرو اگر آرام ارو سکون سے رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس گناہ یا کفر پر راضی ہو اور گناہ گار یا کافر بن گئے؟ اس کے ساتھ میرے دل اور عقیدے کی درستگی اور اس کے لیے مفید اسباب کی دعاء فرمائیں۔

    سوال:

    سنا ہے کہ گناہ کو اگر کوئی گناہ نہ سمجھے تو انسان کافر ہوجاتا ہے، کیا میں نے ٹھیک سنا ہے، گذارش یہ ہے کہ ہم جیسوں سے گناہ ہوتے ہیں اور گناہ کو عقیدہٴ گناہ بھی سمجھتے ہیں یعنی یہ بری بات ہے اس سے الہ ناراض ہوتے ہیں، اگر اللہ نے چاہا تو عذاب بھی ہوگا لیکن اس کے ساتھ بعض گناہوں سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں اور جی بھی گناہ کی لذت سے لطف اندوز اور خوش ہوتا ہے، کیا اس حالت میں ہم خدا نخواستہ کافر ہوجاتے ہیں؟ اس پوچھنے کا منشاء یہ ہے کہ شیطان ہمیشہ کفر کا فتویٰ جاری کرتا ہے جس کی وجہ سے پریشان ہوں۔ (۲) دوسرا سوال یہ ہے کہ دوسروں کے گناہ اور کفر پر راضی ہونے کا کیا مطلب ہے، سنا ہے اگر ان کے گناہ یا کفر پر راضی ہوجاوٴں تو گناہ کی صورت میں گناہ اور کفر کی صورت میں کافر بن جاتا ہوں، کیا یہ صحیح ہے؟ اگر ہے تو اس کا کیا مطلب ہے۔ میں تو ان کے کفر کو بھی برا سمجھتا ہوں اور گناہ کو بھی باقی دل کہتا ہے کہ دل میں تکلیف اور درد پیدا کرو اگر آرام ارو سکون سے رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس گناہ یا کفر پر راضی ہو اور گناہ گار یا کافر بن گئے؟ اس کے ساتھ میرے دل اور عقیدے کی درستگی اور اس کے لیے مفید اسباب کی دعاء فرمائیں۔

    جواب نمبر: 21615

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ب): 771=608-5/1431

     

    ایسا گناہ جو نص قطعی سے ثابت ہو، اس کا ارتکاب کوئی حلال سمجھتے ہوئے کرے کہ ایسا کرنا حرام نہیں بلکہ حلال ہے تو وہ کافر ہوجاتا ہے، اگر دل میں یہ خیال ہو کہ بہت بڑا جرم ہے گناہ کا کام ہے، مگر پھر بھی شیطان کے بہکاوے میں آکر وہ گناہ کا کام کرلیتا ہے، تو اس سے ایمان باقی رہتا ہے البتہ گناہ کا مرتکب ہوا۔ ایسے ہی اگر استہزاء یا استخفافاً اس کو کرتا ہے تو بھی اس کے ایمان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے: إن استحلال المعصیة إذا ثبت کونہا معصیةً بدلالة قطعیة وکذا الاستہانة بہا کفر بأن یعدہا ہنیئةً سہلةً ویرتکبہا من غیر مبالاة بہا ویجریہا مجری المباحات في ارتکابہا، وکذا الاستہزاء علی الشریعة الغراء کفر؛ لأن ذلک من إمارات تکذیب الأنبیاء علیہم الصلاة والسلام (شرح فقہ أکبر لملا علي قاري:۲۵۴، ط: دارالإیمان، سہارنپور)

    دوسروں کے کفر پر راضی ہونے کی دو صورت ہے: پہلی یہ کہ کفر پر راضی ہو تاکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے، اس صورت میں کفر پر راضی ہونے والا آدمی کافر نہیں ہوتا، دوسری صورت یہ ہے کہ: کفر پر راضی ہو، اور اس بنیاد پر اللہ کی شانِ کریمی میں گستاخی کا مرتکب ہو، یعنی خود بھی وہ کلمہ قصدا جان بوجھ کر کہتا ہو تو اس صورت میں اس کے ایمان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ ومن یرضی بکفر غیرہ فقد اختلف فیہ المشائخ رحمہم اللہ في کتاب التخییر في کلمات الکفر إن رضي بکفر غیرہ لیعذب علی الخلود لا یکفر، وإن رضي بکفرہ؛ لیقول في اللہ ما لا یلیق بصفاتہ یکفر، وعلیہ الفتویٰ کذا فيالتتارخانیة (ہندیة: ۲/۲۵۷، کتاب الحدود، فصل فی أحکام المرتدین، بلوچستان)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند