• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 20232

    عنوان:

    قرآن میں مختلف مقامات میں انسان کی دو زندگیوں اور دو اموات کا ذکر ہے۔ اسی طرح قرآن کی سورہٴ زمر آیات نمبر: ۳۱ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا بھی ذکر ہے۔ لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں۔ کچھ کہتے ہیں، وہ ہرجگہ آجاسکتے ہیں اور ایک وقت میں کئی مقامات پر بھی جاسکتے ہیں۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ صرف قبر کے قریب لوگوں کو سنتے ہیں۔ کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور اس کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گے جب کہ نبک روحوں کو علیین میں رکھا جاتا ہے اور ان کو جنت کی سیر بھی کروائی جاتی ہے، تو کیا ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم صرف دنیا کی قبر میں۔ وہ جننت میں جاتے ہیں تو کب جب کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہرانسان جو قبر کے پاس جاتا ہے اور درود پڑھتا ہے تو ان کا درود خود سنتے ہیں، جب وہ سب کا درود سنتے ہیں تو وہ کہیں اور نہیں جاتے ہوں گے۔ کیا وہ قبر میں سوتے جاگتے ہیں لیکن کب؟ ہمیں کیسے علم ہوگا، کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تین زندگیاں اورتین اموات ملیں گیں۔ کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام درود فرشتوں کے ذریعہ پہنچایا جاتا ہے۔ مفتی صاحب یہ وہ سوال ہیں جو مجھ سے میرے دوست نے پوچھے ہیں جس کی وجہ سے مجھے حیات اور موت نوبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر مشکل میں ڈال دیا۔ برائے مہربانی مری قرآن اور سنت کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں۔

    سوال:

    قرآن میں مختلف مقامات میں انسان کی دو زندگیوں اور دو اموات کا ذکر ہے۔ اسی طرح قرآن کی سورہٴ زمر آیات نمبر: ۳۱ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا بھی ذکر ہے۔ لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں۔ کچھ کہتے ہیں، وہ ہرجگہ آجاسکتے ہیں اور ایک وقت میں کئی مقامات پر بھی جاسکتے ہیں۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ صرف قبر کے قریب لوگوں کو سنتے ہیں۔ کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور اس کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گے جب کہ نبک روحوں کو علیین میں رکھا جاتا ہے اور ان کو جنت کی سیر بھی کروائی جاتی ہے، تو کیا ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم صرف دنیا کی قبر میں۔ وہ جننت میں جاتے ہیں تو کب جب کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہرانسان جو قبر کے پاس جاتا ہے اور درود پڑھتا ہے تو ان کا درود خود سنتے ہیں، جب وہ سب کا درود سنتے ہیں تو وہ کہیں اور نہیں جاتے ہوں گے۔ کیا وہ قبر میں سوتے جاگتے ہیں لیکن کب؟ ہمیں کیسے علم ہوگا، کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تین زندگیاں اورتین اموات ملیں گیں۔ کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام درود فرشتوں کے ذریعہ پہنچایا جاتا ہے۔ مفتی صاحب یہ وہ سوال ہیں جو مجھ سے میرے دوست نے پوچھے ہیں جس کی وجہ سے مجھے حیات اور موت نوبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر مشکل میں ڈال دیا۔ برائے مہربانی مری قرآن اور سنت کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 20232

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل): 609=214-4/1431

     

    قرآن کریم کی جس آیت کریمہ میں آپ علیہ السلام کی وفات کا ذکرہے، اس سے وفات دنیوی مراد ہے یعنی دوسرے لوگوں کی طرح آپ پر بھی وفات طاری ہوگی، لیکن اس کے بعد آپ حیاتِ برزخی کے اعتبار سے زندہ ہیں کما في إعلاء السنن فتلک حیاة أخری لا من جنس الحیاة الدنیویة فہومیت باعتبار ہذہ الحیاة الدنیویة حيٌ بتلک الحیاة البرزخیة المغایرة لہذہ الحیاة (إعلاد لاسنن، ۱۷/۲۶۸)

    لہٰذا جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام اپنی قبر میں زندہ ہیں ان کی بات صحیح ہے اور قرآن وحدیث سے موٴید ہے چنانچہ بے شمار احادیث صحیحہ واضحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز وغیرہ پڑھتے ہیں: کما قال السیوطي في کتابہ الحاوي للفتاوی: قال البیہقي في کتاب الاعتقاد الأنبیاء بعد ما قبضوا ردت إلیہم أرواحہم فہم أحیاء عند ربہم کالشہداء (۲/۱۴۹) وقال السیوطي أیضا في کتابہ المذکور: حیاة النبی في قبرہ ہو وسائر الأنبیاء معلومة عندنا علمًا قطعیًا کما قام عندنا من الأدلة في ذلک وتواردت بہ الأخبار (۲/۱۴۷)

    البتہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضور علیہ السلام ہرجگہ آتے جاتے ہیں ان کی بات احادیث وقرآن کی روشنی میں غلط اور بے بنیاد ہے: کما قال المفتي عبد العزیز بن باز: وہذا من أعظم الأباطیل وأقبح الجہل فإن الرسول لا یخرج من قبرہ قبل یوم القیامة وقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: ?أنا أول من ینشق عنہ القبر یوم القیامة? فہذا الحدیث وما في معناہ من الأحادیث کلہا تدل علی أن النبي علیہ السلام وغیرہ من الأموات إنما یخرجون من قبورہم یوم القیامة وہذا أمر مجمع علیہ بَیْنَ علماء المسلمین لیس فیہ نزاع بینہم (مجموع فتاوی ابن باز ۱/۱۸۲، ۲۲۶، ۲۲۷)

    اور آپ نے جو کہا کہ جب حضور کی روح اعلی علیین میں ہے تو آپ قبر میں کس طرح درود وغیرہ سنتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص میری قبر کے پاس درود پڑھتا ہے تو میں خود اسکو سنتا ہوں اور جو کہیں دور سے مجھ پر درود پڑھتا ہے تو وہ مجھ کو پہنچایا جاتا ہے، نیز دوسری احادیث سے ثابت ہے کہ نیک لوگوں کی روحیں اعلیٰ علیین میں رہتی ہیں تو بظاہر اگرچہ ان دونوں قسموں کی احادیث میں تعارض نظر آتا ہے لیکن اگر بنظر غائر احادیث اور فقہائے اعلام کی عبارتوں کو پڑھاجائے تو درحقیقت ان دونوں قسموں کی احادیث میں کوئی تعارض نہیں رہے گا، اس لیے کہ عالمِ برزخ اورعالم دنیا دونوں کا معاملہ الگ الگ ہے، عالم برزخ کو عالم دنیا پر قیاس کرنا جائز نہیں: کما قال الرازی: لأن قیاس الغائب علی الشاہد لا یجوز․ عالم دنیا میں اگر کسی کے بدن سے روح نکل جاتی ہے تو اس روح کا تعلق اس کے جسم سے بالکلیہ منقطع ہوجاتا ہے بخلاف عالم برزخ کے کہ وہاں روح کے بدن سے جدا ہونے کے بعد بھی اس کا جسم سے ایک قسم کا تعلق باقی رہتا ہے: کما قال ابن القیم في کتابہ ?کتاب الروح? الرابع تعلقہا بہ في البرزخ فإنہا وإن فارقتہ وتجردت عنہ فإنہا لم تفارقہ فراقًا کلیًّا بحیث لا یبقي لہا التفات إلیہ البتة۔ کتاب الروح۔ المسئلة السادسة ھل الروح تعاد إلی المیت في قبرہ وقت السوٴال أم لا؟ ص:۶، مکتبہ فاروقیہ پشاور۔

    شرح فقہ اکبر والے لکھتے ہیں کہ اہل حق کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ میت کے اندر قبر میں ایک قسم کی حیات پیدا کردیتے ہیں جس سے وہ درد اور لذت کا احساس کرسکے، نیز ابن قیم لکھتے ہیں کہ روح کے جنت اور آسمان میں ہونے کے باوجود فنائے قبر اور بدن سے تعلق باقی رہتا ہے: کما قال: ولا تظن أن الآثار الصحیحة في ہذا الباب متعارضة فإنہا کلہا حق یصدق بعضہا بعضًا لکن الشأن في فہمہا ومعرفة النفس وأحکامہا أن لہا شأنا غیر شأن البدن وأنہا مع کونہا في الجنة فہي في السماء وتتصل بفناء القبر وبالبدن فیہ (کتاب الروح: ۱۵۲)

    علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ مردوں کا سننا دو طریقوں پر ہوتا ہے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ میت کے جسم کے بعض حصوں میں قوت سماعت پیدا کردیں، دوسرے روح کا سننا بدن کے واسطہ کے بغیر ہو، روح المعانی سورة الروم (۲۱/۵۲، ۲۱/۵۷) لہٰذا مذکورہ بالا فقہاء محدثین اورمفسرین کی تشریحات کی روشنی میں یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ روح کے اعلیٰ علیین میں ہونے کے باوجود جسم سے ایک قسم کا تعلق باقی رہتا ہے، اگر یہ تعلق عالم دنیا کے تعلق کی طرح نہیں ہوتا، اگر اس بات کو تسلیم نہ کیا جائے تو بظاہر احادیث کے مابین تعارض نظر آئے گا اور تسلیم کرلیا جائے تو ان شاء اللہ کوئی تعارض نظر نہ آئے گا۔ اس مسئلہ کی مزید وضاحت کے لیے شرح الصدور، انباء الاذکیاء بحیاة الانبیاء، للسیوطي، کتاب الروح لابن قیم کا مطالعہ کریں، نیز ?آپ کے مسائل اور ان کا حل? کا مطالعہ بھی مفید ہے، جلد دہم بعنوان مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند