• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 174572

    عنوان: گھر كی بندش كروانا كیسا ہے؟

    سوال: (۱) کیا گھر کی بندش کروانا شرعاً جائز ہے؟اسلام میں اس کا نقطہء نظر کیا ہے ؟ (۲) اور اگر جائز ہے تو اسکا صحیح طریقہ کیا ہے؟

    جواب نمبر: 174572

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:278-34T/L=3/1441

    (۱)اگر کسی جائز عمل کے ذریعہ گھر کی بندش ہوجائے جس کے ذریعہ سحر وغیرہ سے حفاظت رہے اور اس عمل کو مؤثر حقیقی نہ سمجھا جائے تو فی نفسہ اس کی گنجائش ہے، حفاظت کے لیے بعض عمل کا ذکر خود احادیث میں مذکور ہے، ایک حدیث میں ہے :سورہ بقرہ کی آخری دو آیتوں کو جو شخص رات میں پڑھ لے اس کی رات بھر حفاظت رہے گی ،نیز شیطان سے نجات پانے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاحضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو تعویذ کے کلمات لکھ دینا ثابت ہے، یہ روایت بیہقی وغیرہ میں مذکور ہے ۔

    (۲) گھر کی بندش کرانے کے لیے کسی نیک دیندار بزرگ عامل کی طرف رجوع کیا جائے ۔

    عن أبی مسعود قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: الآیتان من آخر سورة البقرة من قرأ بہما فی لیلة کفتاہ(مشکاة المصابیح ، کتاب فضائل القرآن)وفی المرقاة: (من قرأ بہما فی لیلة کفتاہ) ، أی دفعتا عنہ الشرک والمکروہ (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح 4/ 1465، الناشر: دار الفکر، بیروت - لبنان)

    فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عامرک عامر سوء یا أبا دجانة ورب الکعبة! ومثلک یؤذی یا أبا دجانة! ثم قال: ائتونی بدواة وقرطاس، فأتی بہما فناولہ علی بن أبی طالب وقال: اکتب یا أبا الحسن. فقال: وما أکتب؟ قال: اکتب: بسم اللہ الرحمن الرحیم.ہذا کتاب من محمد رسول رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم، إلی من طرق الدار من العمار، والزوار، والصالحین، إلا طارقا یطرق بخیر یا رحمن. أما بعد:فإن لنا، ولکم فی الحق سعة، فإن تک عاشقا مولعا، أو فاجرا مقتحما أو راغبا حقا أو مبطلا، ہذا کتاب اللہ تبارک وتعالی ینطق علینا وعلیکم بالحق، إنا کنا نستنسخ ما کنتم تعملون، ورسلنا یکتبون ما تمکرون، اترکوا صاحب کتابی ہذا، وانطلقوا إلی عبدة الأصنام، وإلی من یزعم أن مع اللہ إلہا آخر.لا إلہ إلا ہو کل شیء ہالک إلا وجہہ لہ الحکم وإلیہ ترجعون. یغلبون حم لا ینصرون، حم عسق، تفرق أعداء اللہ، وبلغت حجة اللہ، ولا حول ولا قوة إلا باللہ فسیکفیکہم اللہ وہو السمیع العلیم.(دلائل النبوة للبیہقی محققا 7/ 119، الناشر: دار الکتب العلمیة - بیروت) وقال ابن حجر: وقد أجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثة شروط أن یکون بکلام اللہ تعالی أو بأسمائہ وصفاتہ وباللسان العربی أو بما یعرف معناہ من غیرہ وأن یعتقد أن الرقیة لا تؤثر بذاتہا بل بذات اللہ تعالی(فتح الباری لابن حجر 10/ 195، الناشر: دار المعرفة - بیروت)

    ----------------------

    جواب صحیح ہے گھر کی بندش سے گھر کی حفاظت کے علاوہ اگر مستفتی کی مراد کچھ دوسرا مقصد ہو تو اس کو صاف واضح لکھ کر دوبارہ معلوم کریں۔ (ھ)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند