• متفرقات >> تاریخ و سوانح

    سوال نمبر: 173798

    عنوان: حضرت امیر معاویہؓ اور تاریخی حقائق

    سوال: حضرات میں نے آپ لوگوں سے سوال کیا تھا کہ کیا خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے خلاف جانا اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جانے کے برابر نہیں ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی _1 ( کتاب: حیات الصحابہ رض .جلد: اول .صفحہ: 31. متن حدیث: نبی کریم صلی علیہ وسلم کی اطاعت اور آپ کے خلفاء رضی اللہ عنہم کے اتباع کے بارے میں احدیث) جدید نظر ثانی شدہ ایڈیشن حیات الصحابہ رضی اللہ تعالی عنہم جلد اول تصنیف: حضرت محمد یوسف کاندھلوی رحمت اللہ تعالی علیہ ترجمہ: حضرت مولانا محمد احسان الحق اور. دوسری حدیث شریف حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ یَعْقُوبَ ، ثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِیُّ ، ثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، ثَنَا ثَوْرُ بْنُ یَزِیدَ ، ثَنَا خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِیِّ ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَةَ ، قَالَ : صَلَّی لَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً وَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوبُ وَذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُیُونُ ، فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللَّہِ کَأَنَّہَا مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَأَوْصِنَا ، قَالَ : " أُوصِیکُمْ بِتَقْوَی اللَّہِ ، وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ أُمِّرَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ ، فَإِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیرًا ، فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِی ، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ الْمَہْدِیِّینَ عَضُّوا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ، فَإِنَّ کُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ " . ترجمہ: عرباض بن ساریہ سے روایت ہے ، انھوں نے یہ بیان کیا کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ایک نہایت موثر خطبہ دیا جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور دل کانپ اٹھے ۔ مجمع میں سے کچھ اصحاب نے عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول :یہ تو ایک وداعی خطبہ معلوم ہوتا ہے تو ہمیں کچھ وصیت کیجیے ۔ آپ نے فرمایا: میں تمھیں اللہ سے ڈرتے رہنے اور اپنے صاحب امر کی بات ماننے اور اس کی اطاعت کرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ تمھارا صاحب امر کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ تم میں سے جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے ، وہ اب اور تب میں بڑا فرق محسوس کریں گے تو تم میری سنت کی اور ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کی سنت کی پیروی کرنا، اس کو مضبوطی سے تھامنا اور دانت سے پکڑنا اور دین میں جو نئی باتیں گھسائی جائیں، ان سے خبردار رہنا، کیونکہ ہر ایسی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ تخریج : سنن الترمذی: 2676، سنن أبی داود:4607، صحیح ابن حبان:5، ابن ماجہ :43،44،مسند احمد :16692، 16694، مشکوٰة المصابیح 165 ، مستدرک علی الصحیحین:334، سنن دارمی اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے خلفاء راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کا زمانا 30 سال سابت ہے خلافةُ النبوةِ ثلاثونَ سنةً، ثم یؤتی اللہُ الملکَ، أو ملکَہ، من یشاءُ(صحیح أبی داود:4646) حسن صحیح ترجمہ: نبوت والی خلافت تیس سال رہے گی پھر جسے اللہ چاہے گا(اپنی ) حکومت دے گا. اور خلفاء راشدین رضی تعالی عنہم 4 ہیں حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے 6 مہینے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے پورے کئے تھے لیکن انکا شمار بھی خلفاء راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کی دور فہرست میں ہی ہوتا ہے جو بقول رسول اللہ صلی علیہ وسلم 30 سال پر مشتمل ہے دور خلفاء راشدین رضی اللہ تعالی عنہم حضرت صدیق اکبر ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے شروع ہوکر حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہم پر پورا ہوتا ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمر فاروق اعظم بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالی عنہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہم میرا جو سوال ہے وہ یہ ہے کی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ کی جنگ صفین اور حضرت عمار بن یاسر کی شہادت اسی جنگ کے دوران ہوء جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ عمار رضی اللہ عنہ کو ایک باغی گروہ قتل کریگا: چنانچہ بخاری رحمہ اللہ نے (2812) میں ابو سعید سے نقل کیا ہے کہ: "ہم مسجد کیلئے ایک ایک اینٹ اٹھا کر لا رہے تھے ، اور عمار دو ، دو اینٹیں اٹھا کر لاتے ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم عمار کے قریب سے گزرے ، تو آپ نے عمار کے سر مٹی صاف کی، اور فرمایا: "جیتے رہو! عمار تمہیں ایک باغی گروہ قتل کریگا، عمار انہیں اللہ کی طرف بلائے گا، اور وہ عمار کو جہنم کی طرف بلاتے ہونگے " اس کے بعد حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ جو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد خلیفا چنے گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے باقی ۶ مہینے پورے کئے ان کے خلاف بھی حضرت امیر معاویہ تب تک جنگ کرتے رہے جب تک حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہم خلافت سے دستبردار نہیں ہو گئے میرا سوال یہ ہے کہ کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ان سب واقعات میں حق پر تھے یقیناً وہ بزرگ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اسلام کے ماموں ہیں اگر میرا یہ سوال نا گوار گزرے تو میں آپ سب سے معاف چاہوگا لیکن مجھے میرے اس سوال کا جواب عنایت فرما کر میری اصلاح کریں۔

    جواب نمبر: 173798

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 150-11T/M=02/1441

    حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق تاریخی حقائق کو مفصل طور پر جاننے اور سمجھنے کے لئے حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی کتاب بنام ”حضرت امیر معاویہ اور تاریخی حقائق“ کا مطالعہ کرلیں، اس کتاب کو پڑھ کر صحیح صورت حال واضح ہو جائے گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند