عنوان: شب معراج اور دیگر دو راتوں میں چندہ وصول کرنے کے متعلق
سوال: حضرت، ہماری مسجد ایک پسماندہ لوگوں کی آبادی کے علاقے میں ہے جس کا پورا دارومدار چندے ہی پر ہے۔ کمیٹی کے احباب ہر ماہ محلہ میں پھر کر ۱۰-۲۰ یا ۵۰/ روپیہ جمع کرتے ہیں۔ جس سے امام اور موٴذن کی تنخواہ کا انتظام کرتے ہیں۔ ایک صاحب خیر نے مسجد بڑی عالی شان بنوائی ہے لیکن امام، موٴذن ، لائٹ بل اور دیگر خرچ کے انتظام کو اپنے ذمہ نہیں لیا، اس لئے کمیٹی چندہ کرکے اس کو پورا کر رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جیسے سال میں تین بڑی راتیں آتی ہیں ا س کی مناسبت پر کمیٹی کے صدر صاحب عصر سے باہر والے مائک میں اعلان کرکے چندہ جمع کرتے ہیں مثلاً شب معراج کا چندہ بھیجو یا شب برأت کا چندہ بھیجو یا شب قدر کا چندہ بھیجو کہ اللہ آپ کے مرحومین کی مغفرت فرمائے، اللہ آپ کے گھروں میں برکت دے، اللہ آپ کو صحت عطا کرے۔ اس پر بعض حضرات روک لگا رہے ہیں کہ آپ مائک میں چندہ نہ کریں جب کہ کمیٹی کے صدر اور اہل کمیٹی کا مقصد صرف مسجد کے انتظام کے لئے چندہ کرنا ہے ا س کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں ہے نیز مسجد کی آمدنی کا بھی کوئی ذریعہ نہیں ہے، تو کیا اس طریقے سے چندہ کرکے انتظام کرنا شرعی نقطہ نظر سے صحیح ہے یا نہیں؟ کتاب اور سنت کی روشنی میں بالتفصیل جواب عنایت فرمائیں۔ اور یہاں جو متازع شکل پیدا ہوئی ہے اس کو ختم فرمائیں۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی عرض ہے کہ ان راتوں میں چندہ کیا جاتا ہے ان سے کوئی خلاف شریعت یا بدعت والا کام نہیں ہوتا۔ نماز ہوتی ہے، پھر اس کے بعد تلاوت قرآن ہوتی ہے، پھر اس کے بعد بیان ہوتا ہے، پھر اس کے بعد چائے کا نظام ہوتا ہے، چائے نوشی کے بعد اختتامی دعاء پر مجلس ختم ہوجاتی ہے۔
جواب نمبر: 16127801-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1107-1009/L=9/1439
سوال کے تعلق سے عرض یہ ہے کہ اولاً شبِ معراج منانا ہی درست نہیں؛ کیونکہ قرآن وحدیث میں تو اتنی صراحت کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی تھی مگر اس کی تاریخ میں اختلاف ہے ثانیاً اگر کوئی تاریخ ثابت بھی ہوجائے تو بھی اس رات میں خصوصیت کے ساتھ عبادت کرنے اور جلسہ وغیرہ کا اہتمام کرنے کا ثبوت دورِ نبوت، دور صحابہ اور سلف صالحین سے نہیں ہے؛ اس لیے خصوصیت کے ساتھ ستائیس رجب کو شب معراج سمجھنا اور اس رات میں جلسہ جلوس وغیرہ کا اہتمام درست نہیں، نیز اس کے علاوہ جو راتیں متبرک ہیں ان راتوں میں بھی انفرادی طور پر ہی عبادت کرنی چاہیے، ان راتوں میں بھی اجتماع اور جلسہ جلوس وغیرہ کا اہتمام درست نہیں، اس کے علاوہ مائک پر چندہ کا طریقہ بھی مناسب نہیں، اس میں بھی مفاسد ہیں بایں وجوہ چندہ وغیرہ کا یہ طریقہ لائق ترک ہے۔
یکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلة من ہذہ اللیالي المتقدم ذکرہا في المساجد وغیرہا؛ لأنہ لم یفلعہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا أصحابہ فأنکرہ أکثر العلماء من أہل الحجاز، وقالوا: ذلک کلہ بدعة (مراقی الفلاح مع الطحطاوي فصل في تحیة المسجد: ۳۲۶)
ومن ہنا یعلم کراہة الاجتماع علی صلاة الرغائب التي تفعل في رجب أو في أولی جمعة منہ، وأنہا بدعة․ (شامی زکریا: ۲/۴۶۹)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند