عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 157122
جواب نمبر: 157122
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:436-405/H=4/1439
عرفِ شرع میں علم غیب سے مراد اللہ پاک کا علم ذاتی ہوتا ہے جو کسی کا عطاء کیا ہوا نہیں ہوتا اور اُس پر غیب کا اطلاق بندوں کی نسبت سے ہوتا ہے تفسیر ابن کثیر میں ہے أما الغیب فما غاب عن العباد من أمر الجنة وأمر النار وما ذکر في القرآن ج۱ص۴۰یعنی غیب وہ ہے کہ جو بندوں سے پوشیدہ ہوجیسے جنت وجہنم کے حالات ومعاملات اور جو کچھ کہ قرآن شریف میں بیان کیا گیا ہے (ابن کثیر)
(۲) اللہ پاک کا علم ذاتی ہے علم ذاتی کسی کو نہیں دیا جاتا البتہ اس علم کے مطابق بعض جزئیات کا علم حضراتِ انبیاء علیہم السلام اور ان حضرات کے توسط سے دیگر لوگوں کو عطاء ہوتا ہے اس کو اطلاع علی الغیب کہا جاتا ہے اس طرح تعبیر اور یہ فکر صحیح ہے آپ (سائل) نے جو تعبیر کی ہے وہ صحیح نہیں بلکہ موہم ہے۔
(۳) تھا، قال اللہ تعالیٰ وَعَلَّمْنَاہُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا (سورة الکہف)
(۴) بحوالہٴ مرقاة حاشیہٴ مشکاة میں ہے فإن حصل (العلم) بواسطة البشر فہو کسبي وإلا فہو العلم اللدني المنقسم إلی الوحی والإلہام والفراسة اھ (حاشیہ، ۶ص۳۲) وحی، الہام، فراست سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ علم لدنی کہلاتا ہے اورغیب کا علم وہ ہے کہ جس کی تفصیل نمبر ایک کے تحت لکھ دی پس اللہ پاک کا علم ذاتی علم غیب ہے اور حضراتِ انبیاء علیہم السلام کو وحی سے اور دیگر لوگوں کو الہام وفراست سے جو علم حاصل ہو وہ علم لدنی ہے اوردونوں میں فرق عظیم ظاہر ہے اور مغیبات کا کسی کو علم ہوجانا یہ اطلاع علی الغیب ہے۔
(۵) بعض علومِ غیبیہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرمایا گیا ان مغیبات کا علم تھا۔
(۶) یہ تقریر وتفصیل کس شخص نے آپ کو بتلائی ہے اس سے حوالہ طلب کیجیے اور پورا حوالہ نیز ضروری عبارت نقل کرواکے بھیجئے اس کے بعد ان شاء اللہ تفصیل سے جواب لکھ دیا جائے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند