• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 153700

    عنوان: اللہ سے غصہ ہوکر گالیاں دینا

    سوال: مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میری زندگی کیسی ہے۔ حضرت، مجھے اللہ سے ناامیدی بڑھ گئی ہے، میں اللہ سے دعا مانگ مانگ کر تھک گئی مگر اس کا کوئی جواب نہیں مل رہا۔ یہ سارا معاملہ ایک لڑکے سے محبت کا ہے جو مجھے چھوڑ کر چلا گیا جس کی وجہ سے میں کافی ڈپریشن میں ہوں۔ دو سال ہو گئے اللہ سے مانگتے ہوئے مگر میری طبیعت اور خراب ہو رہی ہے، اب تو میں اللہ سے موت مانگ رہی ہوں، سمجھ میں نہیں آ رہا ہے ، کیا یہ میرے گناہوں کا اثر ہے؟ یا آزمائش ہے؟ یا اللہ نہیں چاہتا کہ میں خوش رہوں ؟ اللہ کے واسطے جواب دیں۔ میرا ایمان کمزور ہو گیا ہے، نماز اور دعا میں دل نہیں لگ رہا ہے، ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا مجھے کوئی خوشی نہیں ملے گی؟ جس نے مجھے دھوکا دیا وہ تو خوش ہے پر میں اللہ سے ناراض اور ناامید ہو گئی ہوں۔ برائے مہربانی میری مدد کریں۔

    جواب نمبر: 153700

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1320-1293/M=11/1438

    معلوم نہیں آپ اللہ سے دعا میں کیا مانگتی ہیں اور کس طرح مانگتی ہیں اور کیا جواب چاہتی ہیں؟ اللہ سے ناراضگی اور ناامیدی بہت خطرناک امر ہے سلب ایمان کا اندیشہ ہے، موت کی تمنا بھی درست نہیں، جس نے دھوکہ دیا غصہ اس پر ہونا چاہیے نہ کہ اللہ پر، اللہ کی ذات تو نہایت کریم ومہربان ہے، اور شادی سے پہلے کسی اجنبی لڑکے سے پیار ومحبت کا معاملہ یہ تو خود ناجائز ہے اگر کسی کو دعا کی قبولیت کا اثر دکھائی نہ دے تو اسے تنگ دل نہیں ہونا چاہیے، اسے اپنے گناہوں اور اپنی بدعملی کا نتیجہ سمجھنا چاہیے، اور اپنے اعمال کی اصلاح کرنی چاہیے، گناہوں سے توبہ استغفار کرنا چاہیے، اور دعا مانگنے کا طریقہ اور سلیقہ بھی سیکھنا چاہیے، اگر کسی کا کھانا، پینا اور لباس حرام ہو تو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی، کسی اجنبی لڑکے کا تصور دل میں جماکر بھی دعا نہ کرنی چاہیے، دعا اگر ناجائز چیز کی نہ ہو تو وہ رد نہیں ہوتی؛ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعینہ وہی چیز مل جاتی ہے، کبھی اس کے بدلے اللہ تعالیٰ کسی آنے والی پریشانی ومصیبت کو ٹال دیتے ہیں اور کبھی اس کو ذخیرہٴ آخرت بناکر رکھ دیتے ہیں یعنی اس کے بدلے آخرت میں ثواب ملتا ہے اس لیے دعا کی قبولت کا اثر ظاہر نہ ہو تو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے اور دعا ترک نہ کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے ناامیدی ہرگز نہ ہونی چاہیے، شادی کا معاملہ اپنے اولیاء کے حوالہ کردیں اور بلاوجہ اپنے کو ٹینشن میں مبتلا نہ کریں، یہ ضروری نہیں کہ ہماری ہرچاہت پوری ہوجائے، بلکہ خیر کی دعا کرنی چاہیے اور خدائی فیصلے پر بخوشی راضی رہنا چاہیے، اللہ تعالیٰ بندوں کی مصلحتوں سے خوب واقف ہے، اور اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں پر نظر رہنی چاہیے اور ہرحال میں شکر ادا کرنا چاہیے اور غیرمساعد حالات میں صبر سے کام لینا چاہیے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہرحال میں دین وشریعت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند