• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 148051

    عنوان: کیا ہم کو اس طرح کا عقیدہ رکھنا کہ بنی اسرائیل کے 588000افراد جو گمراہ ہوئے وہ اس لئے کہ حضرت موسی علیہ السلام کی توجہ قوم کی طرف باقی نہیں رہی درست ہے یا نہیں؟

    سوال: تفسیر مظہری میں لکھا ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام کوہ طور پہنچے تو اللہ نے پوچھا آپ نے آنے میں جلدی کیوں کی اور آپ کی قوم کا کیا ہوا؟اس پر حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ میرے پیچھے آ رہے ہیں اور میں نے آنے میں جلدی اس لئے کی کہ آپ کو راضی کروں ۔اورعجلت الیک رب لترضی القرآن، اللہ تعالٰی نے جواب میں فرمایا فانا قد فتنا قومک من بعدک و اضلہم السامری،تفسیر مظہری میں لکھا ہے کہ اس آیت میں \"ف\" سببیت کے لئے ہے ۔یعنی اس سبب سے ہم نے آپ کی قوم کو فتنے میں ڈالا اور سامری نے گمراہ کر دیا ۔مزید یہ بھی لکھا ہے کہ نبیوں کا کام دو ہے ۔ایک یہ کہ اللہ کے احکامات کو بندوں تک پہنچا نا اور دوسرا یہ کہ اپنی باطنی کشش سے بندوں کو اللہ کی طرف کھینچنا ۔اب چونکہ آپ کی باطنی توجہ امت کی طرف باقی نہیں رہی اس لئے بنی اسرائیل فتنہ اور گمراہی میں مبتلا ہو گئے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم کو اس طرح کا عقیدہ رکھنا کہ بنی اسرائیل کے 588000 افراد جو گمراہ ہوئے وہ اس لئے کہ حضرت موسی علیہ السلام کی توجہ قوم کی طرف باقی نہیں رہی درست ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 148051

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 437-514/Sn=5/1438

    ایسا عقیدہ رکھنا درست نہیں ہے، مذکور فی السوال حوالہ کی حقیقت نیز اس سلسلے میں مزید تفصیلات کے لیے ”وَمَا أَعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ یَا مُوسَی کی صحیح ومعتبر تفسیر“ نامی مقالہ (از حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی، استاذِ حدیث دارالعلوم دیوبند) کا بہ غور مطالعہ کریں، یہ مقالہ دارالعلوم دیوبند کی ”ویب سائٹ“ پر موجود ہے۔

    http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Dawah--Tableeg/148976


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند