• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 147202

    عنوان: کیا سارے بندے بے بسی میں برابر ہیں؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ ایک سنی عالم نے اپنی کتاب میں رد وہابیت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ،\"\"\":بانی وہابیت مولوی اسمٰعیل دہلوی لکھتے ہیں:\"اس کا کوئی شریک نہیں خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا سب اس کے بے بس بندے ہیں اور بے بسی میں سب برابر ہیں. \"(تقویتہ الایمان صفحہ ۶۱)اور یہ دیکھئے قرآن کریم میں ہے حضرت عیسٰی علیہ السلام نے قوم سے فرمایا،میں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی سی مورت بناتا ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں وہ زندہ پرند ہو جاتی ہیں اور میں پیدائشی اندھے اور کوڑھی کو ٹھیک کر دیتا ہوں اللہ تعالٰی کے حکم سے اور میں مردے جلاتا ہوں اللہ تعالٰی کے حکم سے . - پارہ ۳ رکوع ۳۱ سورہ آل عمران آیت ۹۴. تو جو اللہ کے حکم سے پھونک مار کر جان ڈال دے مردے زندہ کرے کوڑھی اور اندھوں کو ٹھیک کرے ان کے لئے بے بسی اور مجبور کا لفظ بولنا قرآن والوں کی بولیاں نہیں ہیں۔میں کہتا ہوں اس میں کوئی شک نہیں اور واقعی اللہ کا کوئی شریک نہیں چھوٹے ہوں یا بڑے سب اس کے بندے ہیں اور اس کی مخلوق ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کے اللہ کے سامنے سب بے بس ہیں لیکن بے بسی میں سب برابر ہیں یہ کہاں سے کہ دیا یہی وہابیت ہے بڑے چھوٹے کا فرق مٹانا انبیاء و اولیاء کو عام لوگوں کی صف میں کھڑا کر دینا گمراہی نہی تو اور کیا ہے یہ دیکھیں حدیث پاک میں ہے ۔حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے اللہ تعالٰی کے کچھ بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالٰی پر قسم کھا جائیں تو اللہ تعالٰی ان کی بات کو پورا فرماتا ہے ۔(بخاری شریف، مسلم شریف، ترمذی شریف، مشکوة شریف)۔بولو وہابی صاحبو یہ کون ہیں کے از روئے حدیث خدائے تعالٰی ان کے منہ کی نکلی پوری فرماتا ہے اور آپ کے بڑے مولانا لکھ رہے ہیں کی بے بسی میں سب برابر ہے .....\"\"\"سوال؛ کیا یہ درست ہے جو لکھا ہوا ہے .؟ ۲- اس میں مصنف نے یہ لکھا ہے کہ \" اللہ کا کوئی شریک نہیں چھوٹے ہوں یا بڑے سب اس کے بندے اور اس کی مخلوق ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ کہ سامنے سب بے بس ہیں\"اس میں اعتراض کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مصنف نے انبیاء کرام کو اللہ کے سامنے بے بس لکھ دیا ہے اور یہ توہین رسالت ہے اور اس کا مرتکب کافر ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا اللہ کے سامنے سب کو بے بس سمجھنا ایمان ہے یا پھر کچھ کو بے بس سمجھنا اور کچھ مخلوق کا اللہ پر بس سمجھنا ایمان ہے ۔اس طرح کا اعتراض کرنے والوں پر کیا حکم شرع ہوگا؟جواب صراحت کے ساتھ عطا فرمائیں۔

    جواب نمبر: 147202

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 377-721/L=6/1438

     

    نفس احتیاج الی اللہ (نفع و نقصان میں اللہ کے محتاج ہونے) اور بے بسی میں تو سارے برابر ہیں قرآن و احادیث سے اس کا ثبوت ہے، ارشاد ربانی ہے وَإِنْ یَمْسَسْکَ اللَّہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہُ إِلَّا ہُوَ وَإِنْ یَمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ اگر اللہ تعالی تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو اس کو خدا کے سوا کوئی ہٹانے والا نہیں اور اگر وہ تجھے کوئی نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمام چیزوں پر قادر ہے (سورہ انعام: ۱۷) دوسری آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں قُلْ لَا أَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّہُ تو کہہ دے کہ میں تو اپنی جان کے نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے۔ (یونس: ۴۹) اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلوایا جارہا ہے کہ آپ کہہ دیں کہ میرے اختیار میں کوئی بات نہیں جو بات مجھے بتلادی جائے میں تو وہی جانتا ہوں کسی چیز کی مجھ میں قدرت نہیں؛ یہاں تک کہ میں خود اپنے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں، ایک اور آیت میں ہے قُلْ إِنِّی لَا أَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا آپ کہہ دیں کہ مجھے تمہارے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں، وقال تعالی: إنک لاتہدی من أحببت ”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے“ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لڑکے! اللہ کو یاد رکھ وہ تجھ کو یاد رکھے گا اللہ کو یاد رکھ تو اس کو اپنے روبرو پائے گا اور جب تو کچھ مانگے تو اللہ ہی سے مانگ اور جب تو مدد چاہے تو اللہ تعالی ہی سے مدد چاہ اور یقین کرلے کہ بیشک اگر سب لوگ اکٹھے ہو جائیں اس پر کہ تجھ کو کچھ فائدہ پہنچادیں تو تجھ کو فائدہ نہ پہنچا سکیں گے مگر جتنا کہ لکھ دیا اللہ تعالی نے تیرے حق میں اور اگر اکٹھے ہو جائیں اس پر کہ تجھ کو نقصان پہونچا دیں تو کچھ نقصان نہ پہونچا سکیں گے مگر وہی جس کو اللہ تعالی نے تجھ پر لکھ دیا ہے قلم اٹھا لیا گیا ہے اور کاغذ سوکھ گیا ہے۔ (مشکوة: ۴۳۵) یہ اور اس طرح کی بہت سے آیات و احادیث میں اس طرح کا مضمون وارد ہے، انبیاء وصلحاء کے ہاتھ سے بطور معجزہ و کرامت کسی چیز کا صادر فرما دینا یا کسی اپنے نیک بندے کی قسم کو پورا کردینا یا کسی کی دعاء کا جلد قبول ہو جانا جیسا کہ سوال میں مذکور ہے اس کے منافی نہیں، اس لحاظ سے فرق مراتب ہو سکتا ہے مگر کرنے والی ذات صرف اللہ کی ہے اس لحاظ سے سبھی اس کے محتاج ہوئے کما لایخفی علی متدبر ، اس میں انبیاء کی توہین نہیں ہے بلکہ حضرات انبیاء کو مختار کل مان لینا یہ اللہ کی صفاتِ مخصوصہ میں شریک ٹھہرانا ہے جو حضرات یہ عقیدہ رکھتے ہیں وہ یقینا ان حضرات کی شان میں گستاخی کرنے والے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند