• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 146468

    عنوان: إستوی علی العرش کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟

    سوال: إستوی علی العرش کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟

    جواب نمبر: 146468

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 195-170/D=3/1438

    قرآن کی بعض آیتوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے استواء علی العرش کو ثابت کیا گیا ہے ، اس کی اور اس جیسے متشابہات کی تفسیر میں اہل سنت والجماعت کے دو موقف ہیں۔ ایک موقف متقدمین کا ہے، جو کہ تنزیہ مع التفویض کے قائل ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نصوص میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے جو صفات بشریہ ثابت کی گئی ہیں، وہ ہم انسانوں کی صفات کی طرح نہیں ہے؛ بلکہ وہ صفات ذات باری تعالیٰ کے لیے ان کی شایان شان ثابت ہے، اور اس کی حقیقت وکیفیت بھی اللہ کو ہی معلوم ہے، چنانچہ ”استواء“ کے ہی متعلق ’شرح فقہ اکبر‘ میں امام مالک کا ایک جملہ نقل کیا گیا ہے، ”الإستواء معلوم والکیف مجہول، والسوال عنہ بدعة والإیمان بہ واجب“۔ (شرح فقہ اکبر: ۴۶، اشرفی دیوبند) کہ استواء تو یقینی ہے، کیفیت معلوم نہیں، اس کے متعلق کھود کرید بدعت ہے، اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے۔

    دوسرا موقف متاخرین کا ہے، جو ’تنزیہ مع التاویل‘ کے قائل ہیں، یعنی اس طرح کی نصوص میں ایسی تاویل کرنا جو ذات باری تعالیٰ کی شایان شان ہو، البتہ نصوص میں وہ تاویلی معنی مراد لینے کی چند شرائط ہیں۔

    (۱) لفظ میں وہ تاویلی معنی مراد لینے کی وسعت و گنجائش ہو۔

    (۲) وہ معنی مرادی شان الوہیت کے منافی نہ ہو۔

    (۳) وہ معنی کسی دوسری نص میں خدا تعالیٰ کے لیے ثابت ہو۔

    (۴) اس معنی کو حتمی اور قطعی نہ سمجھا جائے، چنانچہ متاخرین ’استواء‘ والی آیات میں ’استواء‘ کی تاویل استیلاء سے کرتے ہیں۔ اسی کو ’المہند علی المضند‘ میں اس طرح تعبیر کیا ہے۔ ”وأما ما قال المتأخرون من أئمتنا في تلک الآیات یوٴولونہا بتأویلات صحیحة سائغة في اللغة والشرع بأنہ یمکن أن یکون المراد من الاستواء الاستیلاء ․․․․․ تقریباً إلی أفہام القاصرین، فحق ایضاً عندنا (المہند علی المضند: ۸/ رحیمیہ دیوبند)

    خلاصہ یہ کہ اہل سنت والجماعت کے دونوں مسالک - مسلک تفویض اور مسلک تاویل - برحق ہیں، ان میں سے کسی کا بھی اعتقاد رکھنے والے کی تجہیل و تغلیط جائز نہیں، نیز یہ مسئلہ بڑا نازک ہے اس میں زیادہ غور و خوض نہیں کرنا چاہئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو جو مدینہ میں آکر متشابہات میں گفتگو کرتا تھا، اس کو سخت سزا دی تھی، اور جب وہ واپس اپنے وطن گیا تو حضرت ابو موسیٰ اشعری کو حکم بھیجا کہ کوئی مسلمان اس کے پاس بیٹھنے نہ پائے (سنن دارمی: ۱/۲۵۲، دارالمغنی، مکة المکرمہ۔ روح المعانی: ۳/۸۸، ملتان)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند