عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 146067
جواب نمبر: 146067
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 158-1383/H=1/1439
(۱) آپ نے یہ کہاں سے تجویز کرلیا کہ ”اگر قبر میں سزا اور جزاء کا عمل ہوتا ہے تو پھر تو مسئلہ یہاں پر ختم ہوجاتا ہے اھ“ حقیقت یہ ہے کہ ختم نہیں ہوتا بلکہ شروع ہوتا ہے فہم سے قریب کرنے کے لیے اگر یہ مثال اختیار کرلیں تو امید ہے کہ ان شاء اللہ سمجھ میں آجائے گا کہ جس طرح مجرم کو پکڑ کر اولاً تھانہ میں بند کرکے تفتیش شروع کردی جاتی ہے اور اسی ضمن میں پٹائی وغیرہ بھی ہوتی ہے اور عدالت سے فیصلہ نافذ ہونے کے بعد جیل خانہ اور حوالات میں بند کردیا جاتا ہے اصل یہ ہے کہ عذابِ قبر قرآنِ کریم کی بھی آیات سے ثابت ہے مثلاً تفسیر جلالین میں ہے:
(یُثَبِّت اللَّہ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِت) ہِیَ کَلِمَة التَّوْحِید (فِی الْحَیَاة الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَة) أَیْ فِی الْقَبْر لَمَّا یَسْأَلہُمْ الْمَلَکَانِ عَنْ رَبّہمْ وَدِینہمْ وَنَبِیّہمْ فَیُجِیبُونَ بِالصَّوَابِ کَمَا فِی حَدِیث الشَّیْخَیْنِ۔ (سورة ابراہیم، پ:۱۳)
(ب) (سَنُعَذِّبُہُمْ مَرَّتَیْنِ ) بِالْفَضِیحَةِ أَوْ الْقَتْل فِی الدُّنْیَا وَعَذَاب الْقَبْر (سورة التوبة، پ:۱۱)
(ج) تفسیر ابن کثیر (د) تفسیر کبیر (ھ) تفسیر قرطبی وغیرہ میں یہی آیاتِ مذکورہ بالا کی تفسیر عذابِ قبر سے کی ہے، نیز حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایک بڑی جماعت نے ایسی احادیثِ مبارکہ کو نقل فرمایا ہے کہ جن سے عذابِ قبر تواتراً ثابت ہوتا ہے شرح عقائد اور اس کی شرح نبراس نیز بخاری شریف کی شرح فتح الباری وغیرہا میں بصراحت مذکور ہے۔
(۲) اس میں آپ کو اشکال کیا ہے؟ اس کو واضح انداز پر تحریر کیجیے۔
(۳) یہ مروجہ رسم تو درست نہیں، البتہ کوئی متبع سنت عالم ہو اور اس کو عذابِ قبر کا کشف ہوجائے پھر وہ کھجور کی شاخ یا پتے اس امید پر رکھ دے کہ اللہ پاک ان کی برکت سے عذاب میں تخفیف فرمادے یا موقوف کردے تو اس عالم کے حق میں گنجائش ہوگی مگر محرم کی تخصیص اس میں کچھ نہیں اور نہ ہی اس عالم کے عمل کو حجتِ شرعیہ قرار دے کر دوسروں کو ایسا عمل اختیار کرنے کی اجازت ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند