عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 145957
جواب نمبر: 145957
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 169-028/D=2/1438
ہر مسلمان کلمہ طیبہ کے اقرار کے بعد اس بات کا مکلف ہے، کہ اس کے تمام اقوال و افعال شریعت کے مطابق ہوں، عقائد بھی درست ہوں، معاملات بھی اسلام کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہوں، عبادات بھی ظاہر و باطن کے اعتبار سے حکمِ شرع کے مطابق ہوں، غرض یہ کہ اس کی پوری زندگی شریعت اسلامیہ کی آئینہ دار ہو، پھر اسلام کا اپنا ایک مستقل نظام حیات او رقانون ہے، جس میں زندگی کے تمام شعبہ جات کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں، اور جس طرح اسلام نے عقائد اور عبادات میں رہ نمائی فرمائی ہے، اسی طرح معاملات، معاشرت اور عائلی مسائل کے بارے میں بھی تفصیلی ہدایات دی ہیں۔
احکام نکاح کے لیے سورہ بقرہ/ ۲۲۱، سورہ نساء: ۳/، ۲۲- ۲۵، سورہ مائدہ: ۵۔
احکام طلاق کے لیے سورہ بقرہ: ۲۲۴- ۲۳۲، اور ۲۳۶- ۲۳۷نیز سورہ طلاق مکمل۔
احکام وراثت کے لیے سورہ نساء: ۱۰- ۱۲، اور ۱۷۶۔
احکام وصیت کے لیے سورہ بقرہ: ۱۸۰ - ۱۸۲، اور سورہ الانعام: ۱۰۶- ۱۰۷ملاحظہ ہو،
اور ان آیات کی مکمل و مفصل تشریح تفسیر معارف القرآن، موٴلفہ مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ پھر عائلی مسائل میں اسلام کے بیان کردہ احکام پر عمل کی قرآن پاک میں اس حد تک تاکید کی گئی ہے کہ انہیں ’حدود‘ سے تعبیر کیا گیا ہے (ملاحظہ ہو سورہ بقرہ: ۲۲۹، سورہ نساء: ۱۲، اور سورہ طلاق:۱ ) اور ان حدود کو قائم نہ رکھنے والوں کو ظالم کہا گیا ہے (سورہ بقرہ: ۲۲۹، اور سورہ طلاق:۱ ) اور ظالموں پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے (سورہ اعراف: ۴۴، اور سورہ ہود: ۱۸) جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام کے عائلی قوانین (نکاح ، طلاق، وصیت، میراث وغیرہ) کو ماننا اور حسب موقع اس پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے فرض درجے کی چیز ہے، اب ان اسلامی قوانین کی جگہ پر اگر مسلمانوں کو دوسرے رسم و رواج کا پابند کیا جائے، یا اسلامی پرسنل لاء کے اندر تبدیلی کی بات کی جائے تو مذہبی آزادی کو چھیننے او راسلامی قوانین میں مداخلت کرنے کے مرادف ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند