عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 145283
جواب نمبر: 145283
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1545-1534/L=2/1438
(۱) نقد کے بدلے ادھار میں زیادہ قیمت لے کر فروخت کرنا درست ہے بشرطیکہ مجلسِ عقد میں ثمن کی تعیین کردی جائے قال فی المبسوط: وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فہو فاسد، وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا حتی قاطعہ علی ثمنٍ معلومٍ، وأتما العقد علیہ جاز (المبسوط للمسرخی)
(۲، ۳) ضرورتاً سامان کم قیمت پر فروخت کرنا درست ہے اور چونکہ یہ اضطرار (مجبور کئے جانے) کی صورت نہیں ہے؛ اس لیے خریدنے والے کے لیے کم قیمت پر خریدنا درست ہوگا، تاہم مناسب نہیں، بہتر ہے کہ مناسب قیمت پر سامان کو خریدے۔ قال فی الشامي: أقول وفیہ تأمل لأنہ مثل ما قالوا فیمن صادرہ السلطان بمالٍ ولم یعین بیع مالہ فصار یبیع أملاکہ بنفسہ ینفد بیعہ لأنہ غیر مکرہ علی البیع وہنا کذالک لأن لہ أن لایبیع أصلاً ولہذا قال فی الہدایة: ومن باع منہم بما قدرہ الإمام صح لأنہ غیرہ مکرہ علی البیع، لأن الإمام لم یامر البیع، وانما أمرہ أن لایزید الثمن علی کذا وفرق ما بینہما۔ (شامی: ۹/۵۷۳، کتاب الخطر والاباحة)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند