• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 145283

    عنوان: کیا لمبے ادھار کی وجہ سے چیزوں کو اپنی قیمت سے زیادہ قیمت میں بیچنا ٹھیک ہے ؟

    سوال: کیا فرما تے ہیں علمائے کرام صاحبان اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید ایک غریب آدمی ہے اپنے ملک میں گزارہ نہ ہونے پر اپنا بال بچت پالنے کے لے سعودی عرب کا ویزا کیا ہے ، ویزے میں80000 روپے کم ہے اور کوئی قرض نہیں دیتا، زید نے 80000 روپے نقد کرنے کے لے ایک سودا گر سے 120000 کا بھینس دو سال کے ادھار پر 160000 پر خریدا۔ اب روپے نقد لینے کے لے بھینس کا 80000 میں بیچنے کی آواز دی۔ کچھ دنوں بعد علی نے 40000 روپے نفع سمجھ کر بھینس کو 80000 میں خرید کر گھر لے آیا۔ سوال 1۔ کیا لمبے ادھار کی وجہ سے چیزوں کو اپنی قیمت سے زیادہ قیمت میں بیچنا ٹھیک ہے ؟ سوال 2 ۔زید نے اپنی مجبوری سے کم قیمت کی آواز دی تھی ایسا کرنا یا ایسا نقد پیدا کرنا ٹھیک ہے ؟ سوال3 ۔علی نے جو 40000 روپے نفع سمجھ کر بیع کیا ایسانفع یا مجبوری سے فائدہ اٹھانا ٹھیک ہے ؟

    جواب نمبر: 145283

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1545-1534/L=2/1438

    (۱) نقد کے بدلے ادھار میں زیادہ قیمت لے کر فروخت کرنا درست ہے بشرطیکہ مجلسِ عقد میں ثمن کی تعیین کردی جائے قال فی المبسوط: وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فہو فاسد، وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا حتی قاطعہ علی ثمنٍ معلومٍ، وأتما العقد علیہ جاز (المبسوط للمسرخی)

    (۲، ۳) ضرورتاً سامان کم قیمت پر فروخت کرنا درست ہے اور چونکہ یہ اضطرار (مجبور کئے جانے) کی صورت نہیں ہے؛ اس لیے خریدنے والے کے لیے کم قیمت پر خریدنا درست ہوگا، تاہم مناسب نہیں، بہتر ہے کہ مناسب قیمت پر سامان کو خریدے۔ قال فی الشامي: أقول وفیہ تأمل لأنہ مثل ما قالوا فیمن صادرہ السلطان بمالٍ ولم یعین بیع مالہ فصار یبیع أملاکہ بنفسہ ینفد بیعہ لأنہ غیر مکرہ علی البیع وہنا کذالک لأن لہ أن لایبیع أصلاً ولہذا قال فی الہدایة: ومن باع منہم بما قدرہ الإمام صح لأنہ غیرہ مکرہ علی البیع، لأن الإمام لم یامر البیع، وانما أمرہ أن لایزید الثمن علی کذا وفرق ما بینہما۔ (شامی: ۹/۵۷۳، کتاب الخطر والاباحة)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند