• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 13198

    عنوان:

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک انسان جب ماں کے پیٹ میں آتا ہے اس وقت سے لے کر جب تک وہ دنیا میں زندہ رہتا ہے یعنی موت کی آخری ہچکی تک، کیا ایک ایک لمحہ میں کیا کیا ہوگا کیا ایک ایک بات پہلے سے تقدیر میں لکھی ہوئی ہے؟ مثال کے طور پر اگر وہ آدمی سڑک پر جاتاہے تو راستے میں وہ بے شمار لوگوں کو دیکھتا جاتا ہے جن کو وہ جانتا تک نہیں ہے ان کو ایک خاص لمحے میں اپنی آنکھ سے دیکھنا، کیا یہ تک اس کی تقدیر میں پہلے سے لکھا ہوا تھا۔ مزید یہ کہ اگر انسان کے ماں کے پیٹ میں آنے سے لے کر اس کی موت تک ایک ایک لمحہ تقدیر میں پہلے سے واضح لکھا ہوا ہے، تو پھر یہ جو قرآن مجید میں لکھا ہے کہ انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے کوشش کی اس کی کیا درست تفسیر ہوسکے گی؟ او رانسان جو منصوبہ بندیاں کرتا ہے، جو محنتیں کرتا ہے، جوبھاگ دور کرتا ہے، جو علاج کرتا ہے جو تعلقات بناتا ہے کیا ان کا تقدیر کو بہتر بنانے میں گوئی حصہ ہوتا ہے یا پھر جو تقدیر اب سے لاکھوں سال قبل لکھ دی گئی اس میں خواہ کچھ ہو جائے تبدیلی آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؟ خواہ انسان محنت کرے یا نہ کرے اس کو جو تقدیر میں ملنا لکھا ہے وہ مل کر رہے گا، او رجو تقدیر میں نہیں ملنا لکھا وہ مل ہی نہیں سکتا؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک انسان جب ماں کے پیٹ میں آتا ہے اس وقت سے لے کر جب تک وہ دنیا میں زندہ رہتا ہے یعنی موت کی آخری ہچکی تک، کیا ایک ایک لمحہ میں کیا کیا ہوگا کیا ایک ایک بات پہلے سے تقدیر میں لکھی ہوئی ہے؟ مثال کے طور پر اگر وہ آدمی سڑک پر جاتاہے تو راستے میں وہ بے شمار لوگوں کو دیکھتا جاتا ہے جن کو وہ جانتا تک نہیں ہے ان کو ایک خاص لمحے میں اپنی آنکھ سے دیکھنا، کیا یہ تک اس کی تقدیر میں پہلے سے لکھا ہوا تھا۔ مزید یہ کہ اگر انسان کے ماں کے پیٹ میں آنے سے لے کر اس کی موت تک ایک ایک لمحہ تقدیر میں پہلے سے واضح لکھا ہوا ہے، تو پھر یہ جو قرآن مجید میں لکھا ہے کہ انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے کوشش کی اس کی کیا درست تفسیر ہوسکے گی؟ او رانسان جو منصوبہ بندیاں کرتا ہے، جو محنتیں کرتا ہے، جوبھاگ دور کرتا ہے، جو علاج کرتا ہے جو تعلقات بناتا ہے کیا ان کا تقدیر کو بہتر بنانے میں گوئی حصہ ہوتا ہے یا پھر جو تقدیر اب سے لاکھوں سال قبل لکھ دی گئی اس میں خواہ کچھ ہو جائے تبدیلی آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؟ خواہ انسان محنت کرے یا نہ کرے اس کو جو تقدیر میں ملنا لکھا ہے وہ مل کر رہے گا، او رجو تقدیر میں نہیں ملنا لکھا وہ مل ہی نہیں سکتا؟

    جواب نمبر: 13198

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1343=1056/ھ

     

    اللہ پاک نے کسی پر یہ ظاہر نہیں فرمایا، نہ کسی سے کہا کہ تم جو چاہے کرو، مگر تم جاوٴگے جہنم ہی میں، نہ کسی سے ایسا فرمایا کہ تم جو کچھ چاہو کرتے رہو، مگر جنت ہی میں جاوٴگے، تقدیر نام اللہ پاک کے علم کا ہے اور تقدیر کی وجہ سے بندہ مجبور نہیں ہے، جس طرح دوکاندار تمام اسباب دوکان چلانے کے اختیار کرتا ہے، بلکہ ہرشخص دنیاوی عیش وآرام متاع وسامان کے حصول میں دوڑ دھوپ کرتا رہتا ہے، کبھی یہ نہیں سوچتا کہ جتنا مال ومتاع مقدر میں ہے مل کر ہی رہے گا، پھر دوڑ دھوپ کی کیا ضرورت ہے؟ اسی طرح اعمال صالحہ اور گناہوں کے اختیار وعدم اختیار کو سمجھنا چاہیے، البتہ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ بہت دوڑ دھوپ منافع کمانے میں کی، مگر بجائے نفع کے نقصان ہوگیا تو اس وقت بے شک مسلمان اپنے دل کو تسلی دے کہ جو تقدیر میں تھا وہ ہوگیا، اب اس پر حزن وملال رنج وغم حد سے متجاوز بے کار وعبث ہے۔ اس سے زائد کلام کی حاجت اس مبحث میں نہیں ہے، تقدیر کے مسئلہ میں بحث ومباحثہ جھگڑا ونزاع ممنوع ہے، یہ مضمون احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، بعض مرتبہ بالخصوص عام آدمی کو اس طرح کی بحث میں پڑنے سے نقصان شدید ہوجاتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند