• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 131090

    عنوان: اگر کوئی شخص اللہ پر یقین رکھے مگر فرائض پر عمل نہ كرے؟

    سوال: (۱) اگر کوئی شخص اللہ پر یقین رکھے اور اس حقیقت کا احترام کرے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، مگر وہ ارکان اسلام جیسے نماز، روزہ، زکاة اور حج ، پر عمل نہ کرے تو کیا وہ شخص مسلمان کہلائے گا یا غیر مسلم کہلائے گا؟ (۲) اہل کتاب سے شادی جائز ہونے کی اصل وجہ کیا ہے؟کیا نکاح جائز ہونے کے لیے اہل کتاب کا مسلمان ہونا ضروری ہے؟ (۳) اگر کوئی لڑکی ہندوہے مگر بھگوان پر یقین نہیں رکھتی ہے، اور نہ ہی اس کی پوجا کرتی ہے ، مگر وہ لڑکی ایک اللہ پر یقین رکھتی ہے تو اس کو کیا سمجھائے گا، مسلم یا غیر مسلم؟ (۴) اگر کوئی لڑکی شہادت پر یقین رکھے کہ اللہ ایک ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تو کیا اس کا نکاح مسلمان مرد کے ساتھ ہوسکتاہے؟کیا اس طرح کے اسلام میں داخل ہونے والوں کے لیے ارکان اسلام کو ماننے اور عمل کرنے کے لیے کوئی وقت درکار ہے؟

    جواب نمبر: 131090

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1532-1533/L=2/1438

    (۱) اگر کوئی شخص اللہ رب العزت کو اللہ کی جمیع صفات کے ساتھ مانتا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا قائل ہوتو وہ شخص مسلمان ہے اگر چہ تکاسلاً وہ نماز، روزہ، حج وغیرہ مامورات پر عمل نہ کرتا ہو۔

    (۲) اصل وجہ تو قرآن میں اس حکم کا مذکور ہونا ہے؛ البتہ علماء نے اس کی حکمت لکھی ہے کہ اہل کتاب کا کفر مشرکین و مجوس وغیرہ کے کفر سے اخف ہے؛ کیونکہ یہود و نصاریٰ دینِ سماوی کے قائل ہیں اور شریعت کے اصول و کلیات سے واقف ہیں؛ اس لیے وہ دین اسلام سے اقرب ہیں، لہٰذا مسلمان مرد کا نکاح کتابیہ سے جائز رکھا گیا کہ وہ شوہر کا اثر قبول کرکے مسلمان ہو جائے گی، کیونکہ شوہر بیوی پر غالب اور حاکم رہتا ہے، واضح رہے کہ کتابی عورتوں سے نکاح کے سلسلے میں اب صورتِ حال بدل گئی ہے، خاص طور پر غیر مسلم ممالک (یورپ و امریکہ) میں عورتیں مردوں کے زیر اثر نہیں رہیں، اور کتابی عورتوں سے جو مسلمان نکاح کرتے ہیں وہ بھی عام طور پر دین سے آشنا نہیں ہوتے؛ اس لیے ان عورتوں کے اسلام قبول کرنے کے واقعات بہت ہی کم ہیں عام طور پر مرد ہی عورت کا اثر قبول کرلیتا ہے اور بچے تو ماں کے زیر اثر ہی پروان چڑھتے ہیں؛ اس لیے اب یہ نکاح باعث فتنہ ہے پس اس سے احتراز ضروری ہے۔ (رحمة اللہ الواسعہ: ۵/۱۰۲) اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کے جائز ہونے کے لیے ان کا مسلمان ہونا ضروری نہیں؛ البتہ حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ علیہما السلام پر ایمان لانا اور توریت یا انجیل کو آسمانی کتابیں تسلیم کرنا ضروری ہے۔

    (۳) اگر بھگوان سے مراد ان کے دیوی دیوتا ہیں او روہ لڑکی ان سے براء ت کا اظہار کرتی ہے اللہ پر یقین رکھتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی قائل ہے تووہ مسلمان سمجھی جائے گی بشرطیکہ اس کا اقرار بھی زبان سے کرے اور اگر وہ صرف اللہ پر یقین رکھتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی قائل نہیں تو وہ غیر مسلم سمجھی جائے گی۔

    (۴) جی ہاں! اس لڑکی کا نکاح مسلمان مردسے ہو سکتا ہے، مسلمان ہوتے ہی ارکان اسلام متعلق ہو جاتے ہیں اس کے لیے وقت درکار نہیں، جو بھی مسلمان ہو اس کو چاہئے کہ جلد از جلد ارکان اسلام کو سیکھ کر اس پر عمل کرنا شروع کردے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند