عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 10352
مفتی صاحب ایک شخص سے میں نے کہا کہ توکل کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جو اسباب ونظام بنایا ہے اسے اختیار کرکے بھروسہ اللہ کی ذات پر رکھنے کا نام ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر سے علاج کئے بغیر دعا، صدقہ اورنماز پر اکتفاء بھی کرسکتے ہیں اور ڈاکٹر سے علاج بھی کراسکتے ہیں دونوں توکل میں داخل ہیں?۔ کیا میرایہ کہنا صحیح ہے؟ زیادہ تر میں نے توکل کو حضرت اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ اور امام غزالی رحمة اللہ علیہ اورمفتی تقی عثمانی صاحب کی کتابوں کو پڑھ کر سمجھاہے؟
مفتی صاحب ایک شخص سے میں نے کہا کہ توکل کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جو اسباب ونظام بنایا ہے اسے اختیار کرکے بھروسہ اللہ کی ذات پر رکھنے کا نام ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر سے علاج کئے بغیر دعا، صدقہ اورنماز پر اکتفاء بھی کرسکتے ہیں اور ڈاکٹر سے علاج بھی کراسکتے ہیں دونوں توکل میں داخل ہیں?۔ کیا میرایہ کہنا صحیح ہے؟ زیادہ تر میں نے توکل کو حضرت اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ اور امام غزالی رحمة اللہ علیہ اورمفتی تقی عثمانی صاحب کی کتابوں کو پڑھ کر سمجھاہے؟
جواب نمبر: 10352
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 120=126/ ل
توکل کے دو درجے ہیں، اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اسباب کو چھوڑکر اللہ پر مکمل اعتماد کیا جائے، دوسرا درجہ یہ ہے کہ اسباب کو اختیار کرے، لیکن نفع ونقصان کا یقین اللہ کی ذات پر رہے۔ پہلا درجہ خواص کے لیے اور دوسرا عوام کے لیے ہے، لہٰذا آپ کا یہ کہنا صحیح ہے کہ اسباب کو اختیار کرکے اللہ پر بھروسہ کرے یا پھر صرف دعاء وغیرہ ہی پر اکتفاء کرے دونوں توکل میں داخل ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند