معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 9881
میں دہلی میں رہتا ہوں اورایک کمپنی میں تنخواہ پر ملازمت کرتا ہوں۔اپنی ضرورت کو دیکھتے ہوئے میں دہلی میں ایک مکان خریدنا چاہتا ہوں۔ تاہم میرے پاس اس خریداری کے لیے پیسہ نہیں ہے۔ اس لیے میرے پاس یہی راستہ بچا ہے کہ میں سود پر بینک سے قرض لوں۔ کیا میرے لیے اس پس منظر میں بینک سے سود پر لون لینا جائز ہے؟ مزید مجھے بتائیں کہ کیا مکان کی ضرورت ضروریات اصلیہ میں سے جس کے لیے سود پر مبنی لین دین کیا جاسکے،جب کہ جب کہ میں کرایہ پررہ سکتا ہوں (اگر چہ یہ مستقل اور محفوظ نہیں ہے)۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ انڈیا میں بلا سود کے خریداری کرنا ممکن نہیں ہے۔
میں دہلی میں رہتا ہوں اورایک کمپنی میں تنخواہ پر ملازمت کرتا ہوں۔اپنی ضرورت کو دیکھتے ہوئے میں دہلی میں ایک مکان خریدنا چاہتا ہوں۔ تاہم میرے پاس اس خریداری کے لیے پیسہ نہیں ہے۔ اس لیے میرے پاس یہی راستہ بچا ہے کہ میں سود پر بینک سے قرض لوں۔ کیا میرے لیے اس پس منظر میں بینک سے سود پر لون لینا جائز ہے؟ مزید مجھے بتائیں کہ کیا مکان کی ضرورت ضروریات اصلیہ میں سے جس کے لیے سود پر مبنی لین دین کیا جاسکے،جب کہ جب کہ میں کرایہ پررہ سکتا ہوں (اگر چہ یہ مستقل اور محفوظ نہیں ہے)۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ انڈیا میں بلا سود کے خریداری کرنا ممکن نہیں ہے۔
جواب نمبر: 9881
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 65=93/ ھ
سودی قرض کا لینا دینا حرام ہے، قرآن کریم حدیث شریف میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، آپ کے پاس مکان خریدنے کے لیے اب رقم نہیں ہے تو آئندہ سودی قرض لے کر اس کی ادائیگی مع سود کرنے میں اندیشہ موجودہ پریشانی سے بڑی پریشانی ومصیبت کے پیش آجانے کا بھی ہے، بقدر ضرورت مکان بھی انسان کی حاجت اصلیہ میں داخل ہے، البتہ جب آپ سہولت سے کرایہ کے مکان میں رہ رہے ہیں تو شرعی اعتبار سے یہ مقدار بھی کافی ہے۔ انڈیا میں بغیر سود کے خریداری کیوں ممکن نہیں، جو لوگ خریدتے ہیں اور بغیر سود کے خریدتے ہیں وہ کس طرح خریداری کرتے ہیں؟
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند