معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 7072
ہمارے علاقے میں ایک آدمی ڈالر لیتا ہے زیادہ قیمت پر مثال کے طور پر ایک آدمی کہتا ہے کہ مجھے سو ڈالر ابھی آپ دیدیں اور ایک مہینے بعد پانچ ہزار روپیہ دوں گا، اب سو ڈالر کی قیمت تقریباً تین ساڑھے تین ہزار بنتی ہے، یہ جو زیادہ دیا جاتا ہے مدت کے مقابلے میں آیا یہ شرعاً صحیح ہے کہ نہیں؟ برائے مہربانی جواب میں ذرا تعجیل کریں، آپ حضرات کی بڑی مہربانی ہوگی، یہاں بہت سارے لوگ اس کاروبار میں ملوث ہیں، اور یہاں کے علماء صاحبان کہتے ہیں کہ اس میں جنس مختلف ہیں اس وجہ سے صحیح ہیں، لیکن بعض کہتے ہیں کہ یہ عرفی ثمن ہیں۔
ہمارے علاقے میں ایک آدمی ڈالر لیتا ہے زیادہ قیمت پر مثال کے طور پر ایک آدمی کہتا ہے کہ مجھے سو ڈالر ابھی آپ دیدیں اور ایک مہینے بعد پانچ ہزار روپیہ دوں گا، اب سو ڈالر کی قیمت تقریباً تین ساڑھے تین ہزار بنتی ہے، یہ جو زیادہ دیا جاتا ہے مدت کے مقابلے میں آیا یہ شرعاً صحیح ہے کہ نہیں؟ برائے مہربانی جواب میں ذرا تعجیل کریں، آپ حضرات کی بڑی مہربانی ہوگی، یہاں بہت سارے لوگ اس کاروبار میں ملوث ہیں، اور یہاں کے علماء صاحبان کہتے ہیں کہ اس میں جنس مختلف ہیں اس وجہ سے صحیح ہیں، لیکن بعض کہتے ہیں کہ یہ عرفی ثمن ہیں۔
جواب نمبر: 7072
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1601=1366/ ب
یہ شکل ناجائز اور سود ہے۔ جو قطعی حرام ہے۔ قرآن میں ہے: اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا (بقرہ)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند