معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 68638
جواب نمبر: 68638
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 830-990/SN=11/1437
(۱) جائز ہے ۔
(۲) ”بیمہ“ سود و قمار پر مشتمل ہوتا ہے، اور یہ دونوں ان بڑے گناہوں میں ہیں جن کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں خود کیا ہے، اور انشورنس (بیمہ) کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنا گناہ کے کام میں تعاون ہے جو از روئے آیتِ کریمہ ”وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الإثْمِ وَالْعُدْوَانِ“ (المائدة: ۱) ناجائز ہے؛ اس لیے بیمہ کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
(۳) ”لون“ یعنی سودی قرض لینا گناہِ عظیم ہے؛ اس لیے تجارت کے لیے حلال طریقے سے پیسوں کا نظم کریں، لون لینے کی اجازت نہیں ہے۔
(۴) آپ کے پاس جس طرح کی صلاحیت ہے اس کے حساب سے تجارت شروع کریں اگرچہ بہت چھوٹے پیمانے پر ہو اور اس سلسلے میں تجربہ کار اور ہمدرد لوگوں سے مشورہ بھی کرلیں، وہ آپ کو اچھا آئیڈیا دے سکتے ہیں، ہم آپ کی صلاحیتوں کے بارے میں نہیں جانتے اور نہ ہی ”تجارت“ ہمارا موضوع ہے؛ اس لیے ہم سے تجارت سے متعلق آئیڈیاکا سوال بے سود ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند