معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 68560
جواب نمبر: 68560
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1021-955/SN=11/1437 ”انکم ٹیکس“ ایک ناجائز ٹیکس ہے؛ اس لیے سود کی رقم اس میں بھرنے کی گنجائش ہے اور اس کی فقہی تخریج یہ ہے کہ ”سود“ کی رقم کا اصل حکم یہ ہے کہ مالک کو لوٹا دی جائے یا پھر غریبوں پر صدقہ کردیا جائے اور ظاہر ہے کہ سودی رقم (جو سرکاری بینکوں سے حاصل ہو) کی مالک حکومت ہے اور انکم ٹیکس حکومت کے خزانے میں جمع ہوتا ہے، انکم ٹیکس میں بھرنے کا مطلب یہ ہوا کہ سودی رقم اس کے مالک کو لوٹا دی گئی، اس کا استعمال اپنی ذاتی ضروریات میں نہیں کیا گیا، اس لیے رشوت (گھوس) میں دینے کی گنجائش نہیں ہے؛ کیوں کہ رشوت کی رقم افسران کے جیب میں جاتی ہے، حکومت کے خزانے میں نہیں جاتی تو یہاں مالک کو لوٹانا نہیں پایا گیا، رہا ”ہاوس ٹیکس“ تو یہ اگر چہ حکومتی خزانہ میں جاتا ہے؛ لیکن یہ چوں کہ گھر کے ارد گرد کی صفائی وغیرہ کے معاوضہ کے طور پر لیا جاتا ہے؛ اس لیے اسے ناجائز نہیں کہا جاسکتا؛ لہٰذا اس ٹیکس میں سودی رقم بھرنے کا مطلب اپنی ذاتی ضروریات میں استعمال کرنا ہے؛ اس لیے اس کی گنجائش نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند