• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 68451

    عنوان: بچت کی غرض سے ڈی ایس پی فنڈ کی رقم کو بڑھانا کیسا ہے ؟

    سوال: براہ کرم، سر کاری ملازم کے ڈی ایس پی فنڈ کے حوالے سے درج ذیل مسائل کی قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں: ہرملازم کی عہدے کے لحاظ سے کٹوتی فکس ہوتی ہے ۔ تاہم لازمی کٹوتی کے علاوہ بچت کی غرض سے ڈی ایس پی فنڈ کی رقم کو بڑھانا کیسا ہے ؟ دونوں صورتوں میں اس پر ملنے والا نفع کیسا ہے ؟نفع کی شرع اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے یعنی سال یا دو سال کے بعد ردوبدل ہوتا رہتا ہے ۔جمع شدہ ڈی ایس پی فنڈخواہ فکس ہو یا بچت کی غرض سے بڑھا ہوا ہو، ہے تو ملازم کا مگر یہ رقم اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں جس کو نکلوانے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے اور ماسوائے مجبوری نکال بھی نہیں سکتے ایسی صورت میں جمع شدہ رقم پر زکوٰة کاکیا حکم ہے ؟ اور اگر زکوٰة دینی ہے تو کس رقم پر ،منافع سمیت والی رقم پر یامنافع کے علاوہ اصل رقم پر ؟ ڈی ایس پی فنڈ ا گر قابل واپسی نکلوایا جائے تو اس پر کچھ مارک آپ لگتا ہے اس کا کیا حکم ہے ؟ ۴۔ اگر ایک ملازم کے پاس محض اپنے و اہل وعیال کے ماہانہ خرچ کی تنخواہ ہے مگر ڈی ایس پی فنڈ میں رقم کافی پڑی ہے توکیا اس طرح وہ صاحب نصاب ہے اور اس پر قربانی اور زکوٰة کا کیا حکم ہے ؟ ضروری نوٹ: میرا سوال قطعی طور رپر کہیں بھی شیئر نہ کیا جائے ۔

    جواب نمبر: 68451

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1188-1111/B=12/1437 چونکہ سرکار مذکورہ رقم ہمارے قبضہ اور ملکیت میں آنے سے پہلے خود ہی ہر ملازم سے کاٹتی ہے او رپھر خود ہی اضافہ کرتی ہے تو یہ اضافہ ملازم کی حسن کارکردگی پر عطیہ او رانعام ہوتا ہے اگر سرکار اپنی خوشی سے کوئی انعام دے تو بڑی اچھی بات ہے یہ کوئی سُود کی شکل نہیں ہے اس رقم پر زکوة واجب نہیں، جب ہمارے قبضہ میں آجائے گی اس کے بعد ا س پر زکوة واجب ہوگی جس طرح اس رقم پر زکوة واجب نہیں اسی طرح اس پر قربانی بھی واجب نہ ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند