• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 65242

    عنوان: فون کمپنیوں کی طرف سے اڈوانس بیلنس پر زائد رقم دینا کیا سود ہے؟

    سوال: حضرات مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ فون کرنے کیلئے کمپنیوں کی طرف سے اڈوانس بلینس دیا جاتا ہے اور اس کی ادائیگی کے لئے دیئے گئے بلینس سے زائد رقم ادا کرنا پڑتا ہے کیا یہ سود ہے یا جائز ہے؟

    جواب نمبر: 65242

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 742-677/Sn=7/1437 یہ سود نہیں ہے، ایڈوانس بیلنس لینا شرعاً جائز ہے، اس سلسلے میں دارالعلوم سے جاری شدہ ایک فتوی ارسال ہے، اسے ملاحظہ کرلیں۔ ------------------------------------ آج کل اکثر موبائل فون کمپنیاں اپنے صارفین کو یہ سہولت دے رہی ہیں کہ جب صارف کے موبائل کا بیلنس ختم ہو جاتا ہے تو صارف کچھ رقم جتنا بیلنس ادھار کے طور پہ کمپنی سے حاصل کر سکتا ہے ۔ جب صارف ری چارج کرواتا ہے تو ادھار لی گئی بیلنس کی رقم کچھ اضافی رقم کے ساتھ منہا کرلی جاتی ہے ۔ مثال کے طور پہ اگر دس روپے کا بیلنس ادھار لیا تھا تو تقریباً بارہ روپے منہا کیے جائیں گے ۔ کیا یہ اضافی رقم سود کے زمرے میں آئے گی ؟ کیا مذکور فی السوال طریقے سے بیلنس ادھار لینا جائز ہوگا ؟ Fatwa ID: 253-220/Sn مذکور فی السوال شکل سودی معاملہ کے زمرے میں نہیں آتی؛ بلکہ یہ شکل شرعاً جائز ہے ، اس کی فقہی تخریج یہ ہوگی کہ ادھار خریداری کی بنا پر قیمت کچھ بڑھادی گئی مثلاً نقد رقم ادا کرکے (Talktime) ٹاک ٹائم خریدنے کی صورت میں /۱۰ روپئے میں جتنا ٹاک ٹائم ملتا ہے ادھار خریدنے کی صورت میں اتنا ہی ٹاک ٹائم بارہ یا تیرہ روپئے میں ملے گا اور فقہاء نے نقد اور ادھار خریداری کے درمیان قیمت متفاوت رکھنے کو جائز لکھا ہے بہ شرطے کہ مجلس عقد میں ا یک قیمت طے ہوجائے اور یہاں ایک قیمت طے ہوجاتی ہے ۔ ”قضایا فقہیہ معاصرہ “میں ہے : أمّا الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبت العاقدان بأنہ بیع موجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد․ (ص: ۱۲، ط: دمشق) نیز دیکھیں: الدر المختار مع رد المحتار (/۷ ۳۶۲، ط: زکریا) ومبسوط للسرخسی (/۱۳ ۸۰۷، ط: بیروت) از: محمد اسد اللہ غفرلہ، معین مفتی 12/3/1437 الجواب صحیح: محمود حسن بلند شہری غفرلہ، محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند