• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 64510

    عنوان: سود کے پیسوں سے خریدی گئی کار میں سفر کرنا؟

    سوال: میرا سوال سود پر لی ہوئی کار میں بیٹھنے کے تعلق سے ہے، سعودی عرب میں لوگ کار خریدتے ہیں لون لے کر ، اس میں کچھ سود بھی ہوتاہے، میرے آفس میں ایک صاحب نے ایسے ہی ایک کار لی ہے ، کیا ان کے ساتھ اس کار میں بیٹھ کر کہیں جانا جائز ہے ؟ ہمارا گھر قریب میں ہے ، ہم لوگ ساتھ میں جاتے ہیں اس کار میں، سود پر لی ہوئی کار میں سفر کرنا جائز ہے؟ کیوں کہ ان صاحب کے ساتھ جانے سے آسانی ہوتی ہے ورنہ ٹیکسی سے جانا پڑے گا، اس میں وقت اور پیسہ دونوں بھی لگے گا۔ اور ایک سوال یہ ہے کہ سعودی عرب میں بینک لون دیتاہے اور کہتاہے کہ ” شریعت کے مطابق“ ہے ، حالانکہ اس میں سود کا فیصد بھی ہوتاہے تو کیا وہ لون لیا جائے ؟ شریعہ بورڈ نے اس کو منظور کیا ہے۔ براہ کرم ، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 64510

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 678-777/N=8/1437 (۱) صورت مسئولہ میں آپ اپنے آفس کے ساتھی کی کار میں بیٹھ کر گھر یا آفس وغیرہ آجاسکتے ہیں، جائز ہے؛ کیوں کہ انھوں نے گاڑی کے لیے جو سودی قرض لیا، یہ بلاشبہ حرام وناجائز کام کیا، کیوں کہ مذہب اسلام میں سود لینا اور سود دینا دونوں ہی حرام ہیں اور سودی قرض لینے والا قرض دینے والے کو اصل قرض کی واپسی کے ساتھ جو مزید دیتا ہے، وہ شرعاً سود ہوتا ہے لیکن سودی قرض میں قرض لینے والے کو قرض کے نام پر جو پیسے حاصل ہوتے ہیں، قرض لینے والا قبضہ کے بعد ان کا مالک ہوجاتا ہے، نیز وہ بعد میں قرض واپس کرکے اس کا عوض لوٹادیتا ہے؛ اس لیے یہ پیسے اس کے لیے حرام نہیں اور ان سے خریدی ہوئی کار یا کوئی اور چیز بھی حرام نہیں۔ پس گاڑی کے مالک کے لیے اسی طرح اس کی اجازت سے دوسروں کے لیے سودی قرض سے خریدی ہوئی گاڑی میں سوار ہونا اور سفر کرنا جائز ہے، البتہ گاڑی کے مالک نے گاڑی کے لیے سودی قرض لے کر جو گناہ کا کام کیا، اس سے اس پر سچی پکی توبہ بھی لازم وضروری ہے۔ قال في بدائع الصنائع (کتاب القرض، فصل في حکم القرض ۱۰: ۶۰۰، ط دار الکتب العلمیہ، بیروت) وأما حکم القرض فہو ثبوت الملک للمستقرض في القرض للحال وثبوت مثلہ في ذمة المستقرض للمقرض للحال وہذا جواب ظاہر الروایة، وروي عن أبي یوسف في النوادر: لا یملک القرض بالقبض ما لم یستہلک إلخ، وقال في التنویر (مع الدر والرد ۷: ۳۸۹، ط مکتبہ زکریا دیوبند) فیصلح استقراض الدراہم والدنانیر إلخ، وفي ص ۳۹۴ منہ: والقرض لا یتعلق بالجنائز من الشروط فالفاسد منہا لا یبطلہ ولکنہ یلغو شرط رد شیٴ آخر فلو استقرض الدراہم المکسورة علی أن یوٴدي صحیحًا کان باطلا اھ․ (۲) ہمیں سعودی عرب کے بینکوں کے متعلق تفصیلی معلومات نہیں ہے، باقی اگر کوئی بینک قرض دے کر مقدار قرض سے زیادہ وصول کرتا ہے تو زائد رقم ناجائز اور سود ہی ہوگی؛ کیوں کہ اس پر شرعاً سود کی تعریف صادق آتی ہے، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع در وشامی: ۷/ ۳۹۸-۴۰۰، مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) وأما ربا لانسیئة فہو الأمر الذي کان مشہودًا متعارفًا في الجامعیة، وذلک أنہم کانوا یدفعون المال علی أن یأخذوا کل شہر قدرًا معینًا، ویکون رأس المال باقیًا (تفسر کبیر: ۹۱) کل قرض جر نفعًا حرام أي إذا کان مشروطًا، کما علم عما نقلہ عن البحر (شام: ۷: ۳۹۵) الربا ہو القرض علی أن یوٴدي إلیہ أکثر أو أفضل مما أخذ (حجة اللہ البالغة، الربا سحت باطل ۲/ ۲۸۲)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند