• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 63095

    عنوان: موبائل بیلنس ادھار لینے سے متعلق سوال

    سوال: آج کل اکثر موبائل فون کمپنیاں اپنے صارفین کو یہ سہولت دے رہی ہیں کہ جب صارف کے موبائل کا بیلنس ختم ہو جاتا ہے تو صارف کچھ رقم جتنا بیلنس ادھار کے طور پہ کمپنی سے حاصل کر سکتا ہے ۔ جب صارف ری چارج کرواتا ہے تو ادھار لی گئی بیلنس کی رقم کچھ اضافی رقم کے ساتھ منہا کرلی جاتی ہے ۔ مثال کے طور پہ اگر دس روپے کا بیلنس ادھار لیا تھا تو تقریباً بارہ روپے منہا کیے جائیں گے ۔ کیا یہ اضافی رقم سود کے زمرے میں آئے گی ؟ کیا مذکور فی السوال طریقے سے بیلنس ادھار لینا جائز ہوگا ؟

    جواب نمبر: 63095

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 2253-220/Sn=3/1437-U مذکور فی السوال شکل سودی معاملہ کے زمرے میں نہیں آتی؛ بلکہ یہ شکل شرعاً جائز ہے، اس کی فقہی تخریج یہ ہوگی کہ ادھار خریداری کی بنا پر قیمت کچھ بڑھادی گئی مثلاً نقد رقم ادا کرکے (Talktime) ٹاک ٹائم خریدنے کی صورت میں ۱۰/ روپئے میں جتنا ٹاک ٹائم ملتا ہے ادھار خریدنے کی صورت میں اتنا ہی ٹاک ٹائم بارہ یا تیرہ روپئے میں ملے گا اور فقہاء نے نقد اور ادھار خریداری کے درمیان قیمت متفاوت رکھنے کو جائز لکھا ہے بہ شرطے کہ مجلس عقد میں ا یک قیمت طے ہوجائے اور یہاں ایک قیمت طے ہوجاتی ہے۔ ”قضایا فقہیہ معاصرہ“ میں ہے: أمّا الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبت العاقدان بأنہ بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد․ (ص: ۱۲، ط: دمشق) نیز دیکھیں: الدر المختار مع رد المحتار (۷/ ۳۶۲، ط: زکریا) ومبسوط للسرخسی (۱۳/ ۸۰۷، ط: بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند