• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 61234

    عنوان: میں بینک میں فسکڈ ڈپوزٹ 500000روپئے کرواتا ہوں تو مجھے کچھ سالوں میں سود کے ساتھ 10,00000 ملیں گے۔ اور میں بینک سے 70,00000روپئے کا لون لیتا ہوں، لون کا جو سود ہے؟ میں پہلے والے فکسڈ ڈپوزٹ میں جو سود مل رہا ہے، وہاں پر لون کا سود بھرتا ہوں، تو سود کو سود مٹ رہا ہے۔ یہ جائز ہے کیا؟

    سوال: میں بینک میں فسکڈ ڈپوزٹ 500000روپئے کرواتا ہوں تو مجھے کچھ سالوں میں سود کے ساتھ 10,00000 ملیں گے۔ اور میں بینک سے 70,00000روپئے کا لون لیتا ہوں، لون کا جو سود ہے؟ میں پہلے والے فکسڈ ڈپوزٹ میں جو سود مل رہا ہے، وہاں پر لون کا سود بھرتا ہوں، تو سود کو سود مٹ رہا ہے۔ یہ جائز ہے کیا؟

    جواب نمبر: 61234

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 776-776/Sd=1/1437-U سودی لین دین ناجائز ہے،قرآن کریم اور احادیث میں سودی لین دین پر سخت وعیدیں آئی ہیں،البتہ پیسوں کی حفاظت کے لیے بینک میں رقم جمع کرانے کی گنجائش ہے، لیکن اُس سے حاصل ہونے والی سودی رقم سے کسی طرح کا انتفاع جائز نہیں ہے ؛بلکہ ثواب کی نیت کے بغیر غرباء مساکین پر اُس کا تصدق واجب ہے ، لہذا صورتِ مسوٴولہ میں اولا تو آپ کے لیے سودی قرض لینا ہی جائز نہیں ہے اور اگر لے لیاہے، تو فکسڈ ڈیپازٹس سے حاصل ہونے والی سودی رقم کے ذریعے لون کی وجہ سے واجب شدہ سود کی ادائے گی جائز نہیں ہے،بلکہ سودی رقم کا ثواب کی نیت کے بغیر غرباء مساکین پر تصدق ضروری ہے۔ قال اللّٰہ تعالی: و أحل اللّٰہ البیع و حرم الربوا۔ ( البقرة:۲۷۵) عن جابر رضي اللّٰہ عنہ قال لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا و موکلہ وکاتبہ وشاہدیہ،وقال: ہم سواء۔( مشکاة المصابیح، ص: ۲۴۴، باب الربا، الفصل الأول) وعن أبی ہریرة رضي اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الربوا سبعون جزء اً أیسرہا أن ینکح الرجل أمہ۔( مشکاة المصابیح، ص:۲۴۶، باب الربا، الفصل الثالث) قال البنوري نقلًا عن العلامة الکشمیري: یُستَفَادُ من کتب فقہائنا کالہدایة و غیرہا أن من مَلَکَ بملک خبیث ولم یمکنہ الردُّ الی المالک ، فسبیلُہ التصدق علی الفقراء ، قال: ان المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغَ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبةَ۔( معارف السنن:۱/۳۴، أبواب الطہارة)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند