• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 610672

    عنوان:

    سود پر مبنی لون لینے كا حكم

    سوال:

    میرے ایک ساتھی ہیں جن کا اکاؤنٹ ایچ ڈی ایف سی بینک میں ہے۔ان کو آفر ہے72,000 لون کا۔جس کی رقم قسطوار بارہ مہینے 6671 بننی ہے۔ 6671 بنے تو سال کو 80,050 ہوتے ہیں، یعنی 8000 زیادہ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس پیسہ کو گر اپنے تجارت میں استعمال کروں تو نہ کم از کم دو پرسنٹ بھی پکڑے تو ماہانہ1500کی آمدنی ۔ اس حساب سے 18000 سال کامنافع ہوا۔ اور بینک نے 8000 لے لیے تو دس ہزار ہمارا ہوا۔ اور وہ بہتر ہزار بھی جمع ہوتاہے تو کیا ایسا کرنا درست و جائز ہے؟کیا یہ کمائی حلال ہوگی؟ جزاکم اللہ خیرا

    جواب نمبر: 610672

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 834-427/TB-Mulhaqa=8/1443

     سوال میں جو صورت ذكر كی گئی ہے‏، یہ سود پر مبنی لون كی شكل ہے‏،اس طرح كا لون لینا(خواہ اپنے اكاؤنٹ سے لیاجائے یا كسی او ركے اكاؤنٹ سے) شرعا جائز نہیں ہے‏، ؛ لہذا اپنے كاروبار كے لیے اس طرح كا لون نہ لیں‏، اگرچہ سود نسبتًا كم ہو‏، بغیر لون كے جس قدر كاروبار ہوسكے انجام دیں ۔

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (279) [البقرة: 275 - 279] لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال:هم سواء.(صحيح مسلم 3/ 1219)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند