• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 608581

    عنوان:

    کسی کو سودی کاروبار کرنے والے کا ایڈریس بتانا

    سوال:

    کیا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو سودی کاروبار کرنے والے کا ایڈریس بتا سکتا ہے ؟

    جواب نمبر: 608581

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:323-234/H-Mulhaqa=6/1443

     کسی مسلمان کا دوسرے کو سودی قرض یا سودی کاروبار کے لیے کسی سودی کاروبار کرنے والے کا ایڈریس بتانا ناجائز وممنوع ہے، سود کے باب میں اس سے بھی بچنا چاہیے۔

    قال اللّٰہ تعالی :﴿ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان﴾ (سورة المائدة، رقم الآیة: ۲)

    عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: ”لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہوسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء“ (الصحیح لمسلم، باب الربا، ۲: ۲۷، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    وفي معنی المعطي: المعین علیہ، وکاتبہ: الذي یکتب وثیقتہ، وشاھداہ: من یتحمل الشھادة بعقدہ وإن لم یوٴدھا، وفي معناہ: من حضر فأقرہ(المفھم،۴:۵۰۰، ط: دار ابن کثیر دمشق)۔

    ودخول الکاتب والشاھد لإعانتھما علی ھذہ المعصیة (ط)، والمراد بالکاتب کاتب الوثیقة وبالشاھد المتحمل وإن لم یوٴد، وفي معناھما من حضر فأقرہ (إکمال الإکمال،۴:۲۸۰،ط:دار الکتب العلمیة بیروت)۔

    والمراد بالکاتب کاتب الوثیقة وبالشاھد المتحمل وإن لم یوٴد، وفي معناھما من حضر فأقرہ (ب)(مکمل إکمال الإکمال مع إکمال الإکمال، ۴:۲۸۱)۔

    فیہ تصریح بتحریم کتابة المتبایعین المترابیین والشھادة علیھما وبتحریم الإعانة علی الباطل کنایة (الکاشف عن حقائق السنن للطیبي،ص: ۲۱۲۴،ط: مکتبة نزار مصطفی الباز، مکة المکرمة)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند