• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 608436

    عنوان:

    حکومت کو دکھانے کے لیے لون لینا

    سوال:

    عنوان : فتوی: 2471=409/ ب کے تناظر میں جواب مطلوب ہے

    سوال : 1) بھارت کا per capita debt 1,731$ ہے یعنی کے تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار روپے ، بھارت کا ٹوٹل قرضہ اقتصادی سال 2020-2021 کا تقریباً اتنا ہے 4,29,69,02,25,00,000.01 ، بھارت کی مسلم آبادی سرکاری حساب سے 14.09 فی صد ہے ۔ دنیا کی بینکوں کو بھارت سرکار اپنی آبادی اور ملک میں کام کرنے والے لوگوں کا تناسب بتاکر قرض لیتی ہے ۔ وہاں ہندو مسلمان کا حساب نہیں بتایا جاتا ہے بلکہ ہمارے پاس اتنی افرادی قوت ہے ۔ اس میں اتنے پیشہ وارانہ لوگ ہے ، اتنی تاجر ہے ، ہم اتنی آیندہ سال ترقی کر سکتے ہیں اور ہمارے ٹیکسس ایسے ایسے عوام پر لگائے گئے ہیں ہم اپنی عوام سے ٹیکس وصول کرکے آپ کا قرض ادا کر دیں گے اس طرح قرض لایا جاتا ہے ۔ اس کے بعد ان روپیوں سے فلاحی کام انجام دیے جاتے ہیں ۔ اور ان کے کا نٹریکریٹ میں گھوٹالے بھی ہوتے ہیں ، عوام پر ظلم ایک طرح کا ظلم ہے یہ ،انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی میں بھی ہزار تماشے ہیں، اگر آپ نے مثلاً 5 لاکھ سالانہ کمائے تو ٹیکس کی شرح الگ زیادہ کمائے تو الگ ۔ یعنی کہ آگے بڑھنے سے پہلے بھی سوچیں بعد کی مشکلات کا ، اگر تاجر ہے اسے اگر کوئی ایجنسی لینا ہے تو بیلنس شیٹ بتانا پڑے گا کہ ہاں میں اتنا قابل ہوں کہ 5 لاکھ سے زائد میری آمدنی ہے ،،، کمپنی ایجنسی جب دے گی جب تاجر ترقی پسند لگے ۔اگر بتا دے تو ہر سال کا زاید ٹیکس دینا پڑتا ہے ،کاروبار اچھا ہوا 15 لاکھ آمدنی بتاے تو سوپر اسٹاکسٹ کی ایجنسی کمپنی دیتی ہے ، حکومت خرچ کہاں کیا مانگتی ہے ، مہنگی مہنگی چیزیں لون وغیرہ پر لے کر تاجر بتاتے ہیں کہ ہم خود مقروض ہیں یہ لون پر لیا ہے وہ لون پر لیا ہے اور ہمارا اتنا سود جا رہا ہے یہ ہمارا نقصان ہے ، اس پر ٹیکس نہ لگائیں اس طرح ٹیکس سے بچتے ہیں ، حکومت اسے اچھی طرح جانتی ہیں کہ لوگ کیسے پیسے بچاتے ہیں ،مگر وہ بلی کو دودھ پینے دیتی ہے تاکہ عالمی سطح پر ہندوستان کو بڑی منڈی بتا سکے ،، ٹیکس بچانے کے تاجر کاروں پر کاریں لیتا ہے ،،موباییل نے لیتا ہے ۔ جو ایسے بچا رہا ہے وہ صرف اس لیے کی خود عیش کرو نہ حکومت کی جیب میں جانے سے بہتر، مال بکتا ہے فایدہ سرکار کو ٹیکس کی صورت میں ہوتا ہے ، ماچس کی ڈبیا بھی لیں تو حکومت کو فائدہ ہے ،، آپ لائٹ کا بل دیں تو اُس پر بھی سرکار کو ٹیکس دیں ، پیٹرول ڈلواییں تو اُس پر ٹیکس مثلا 93 روپے لیٹر پیٹرول ہے تو ریاستی اور مرکزی حکومت 60 روپے ٹیکس لے رہی اور تین روپے ڈیلر کمیشن اور 30 روپے بیس پرایس ہے جو کہ اصل قیمت ہے ۔اگر زید زوماٹو کا سرویس باے ہے نہ ہنر مند ہے نہ ہی تعلیم یافتہ 16000 مہینہ کماتا ہے اور 1 لیٹر روز پیٹرول خریدتا جو کہ اسے ضروری ہے ۔ تو اپنے اتنی محنت کی کمائی میں سے 1800 روپے حکومت کو دے رہا ہے بحالت مجبوری ۔۔۔ لایٹ کا بل بھریں تو 40 روپے حکومت کو دے رہا ہے ،ایسا دو ہزار مہینہ کیسا بھی سرکار کو ٹیکس دے رہا ، زید کی سالانہ بچت سے زیادہ سرکار اس ٹیکس وصول کر لیتی ہے ۔ مسجد کے بیچارے مولیوں کو مسجد کمیٹی 16-17 ہزار مسجد کے امام صاحب کو ماہانہ دیتی ہے وہ بیچارے بھی کسی حوالے 2 ہزار گورنمنٹ دے رہیں ہیں ،،،یہ جبر ہے کچھ معاشی استحصال کی باتیں بتائی ہیں ۔۔۔۔حکومت قرض لینے سے بعض نہیں آئیں گی،،،عوام سے ٹیکس لینے سے بعض نہیں آئیگی۔ ایسے میں زید اور مولوی صاحب ,, وہ تاجر کیا کریں جو کاروبار کو وسعت دینا چاہ رہا ہو یا وہ شخص جس کی آمدنی محدود ہو ۔کیونکہ یہ تینوں ظلم کا شکار ہو رہے ہیں نہ سودی لون لے سکتے ہیں ۔ نہ حکومت انکے حال پر رحم کھاتی ہے ۔ پیٹرول خریدتے وقت سبسڈی کی ضرورت زید کو ہے مولوی صاحب کو ہے ۔ مگر سبسڈی امبانی اڈانی اور مالیا کو دی جاتی ہیں، کیونکہ یہ لوگ زیادہ کی بیلنس شیٹ بتاتے ہیں ، لون لیتے ہیں آگے بڑھتے ہیں اور ہمارے خلاف سازشیں کرتے ہیں ۔ 1) اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے ، اسکا متبادل نظام کیا ہے ؟مسلمانو ں پر جو بیجا معاشی ظلم ہو رہا ہے تو اسکا حل کیسے کریں ؟سیدھا سادھا مسلمان غریب سے غریب ہورہا ہے سودی قرض سے گھر بنا نہیں سکتا کیونکہ اسلام میں حرام ہے ؟ اور اطراف میں کوئی بلا سودی معاشی نظام موجود نہیں ہے ؟ زکوٰة مکمل نکالی نہیں جاتی ۔ اس کا سدباب اور حل علماء مفتیان اکرام کیا دیکھتے ہیں ؟ اور جب بلا سودی معاشی نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو کیسے فتوی کا اطلاق ہوں گا۔اس کا حل نفسانی خواہشات کو قابو میں رکھ کر کیا جاسکتا ہے یہ آسان ہیں ،مگر بچے جو کہ نادان ہے ضد کرتے ہیں خاموش نہیں بیٹھتے ،، کتنی تربیت کرلیں آدھی نسل بگڑتے چلی جارہی ہے ۔ آہستہ آہستہ دین سے اور دینداروں سے دوری بناتے جا رہی ہے ۔تو بلا سودی معاشی نظام کے لیے دارلعلوم کی جانب سے کیا کوشیش ہورہی ہیں ؟

    جواب نمبر: 608436

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 630-94T/B=06/1443

     آپ کی باتیں کسی قدر اپنی جگہ درست ہیں، لیکن مسلمان کو شرعی احکام پر عمل کرنا ضروری ہے، اور قرآن و حدیث میں سود کی حرمت پر بڑی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں سود خوروں کے لیے اعلان جنگ فرمایا ہے: فإن لم تفعلوا فأذنوا بحرب من اللہ ورسولہ۔ اس لیے ہر مسلمان کو اس سے احتراز کرنا ضروری ہے۔ اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الدنیا سجن الموٴمن وجنة الکافر۔ دنیا موٴمن کے لیے قیدخانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ اس لیے آپ زیادہ پریشان نہ ہوں؛ بلکہ قناعت سے کام لیجئے، جو لوگ دنیا میں حرام چیزوں سے بچ کر زندگی گزاریں گے وہ آخرت میں سرخ رو ہوں گے، البتہ فقہی حیثیت سے اگر آپ انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے کچھ رقم حکومت کو دکھانے کے لیے لون لینا چاہتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند