• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 607489

    عنوان:

    سود وقمارخود مختار بانڈز خریدنا

    سوال:

    مندرجہ ذیل سرمایہ کاری کے حلال پہلو پر علمائے اکرام کی رائے جاننا چاہیں گے ۔ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی RBI) کے جاری کردہ خود مختار گولڈ بانڈز (ایس جی بی SGB) میں سرمایہ کاری۔ SGBs دراصل بانڈز ہیں (کاغذات کا ٹکڑا) جو کہ حکومت ہند RBI کے ذریعے فروخت کرتی ہے ۔ اس بانڈ کی اہم خصوصیات درج ذیل ہیں۔ 1) اس بانڈ کے ہر یونٹ کی قیمت ایک گرام جسمانی سونا کے برابر ہے ۔ 2) گولڈ بانڈز کی برائے نام قیمت انڈین بلین اینڈ جیولرز ایسوسی ایشن لمیٹڈ(Indian Bullion and Jewellers association limited) کی طرف سے شائع ہونے والے 999 پاکیزے کے سونے کی بند ہونے کی سادہ اوسط(Closing price) کی بنیاد پر بھارتی روپے میں مقرر کی جائے گی ، پچھلے ہفتے کے آخری 3 کاروباری دنوں کے لیے رکنیت کی مدت 3) 8 سال کا لاک ان(lock-in) پیریڈ ہے ، یعنی 8 ویں سال کے آخر میں RBI سرمایہ کاری کی سونے کے برابر رقم ادا کرے گا۔ مثال کے طور پر ، اگر آپ نے بانڈ کے 8 یونٹ خریدے ہیں تو آپ 8 سال کی مدت کے اختتام پر موجودہ سونے کی قیمت پر 8 گرام کے مساوی نقد رقم کے حقدار ہیں۔ اس طرح یہ اتنا ہی اچھا ہے جتنا جسمانی سونا خریدنا اور 8 سال بعد فروخت کرنا۔ 4) یہاں کوئی جی ایس ٹی(gst) نہیں ہے اور نہ ہی ذخیرہ کرنے کے اخراجات شامل ہیں کیونکہ جو تجارت ہو رہی ہے وہ اصل سونا نہیں ہے بلکہ کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جس کی قیمت سونے کے برابر ہے 5) اگر ہم اسے آن لائن(online) خریدیں تو 50 روپے فی گرام کی چھوٹ ہے ۔ 6) 8 سال کے بعد چھٹکارے پر ہونے والے منافع پر کوئی ٹیکس نہیں ہے ۔ یعنی منافع پر کوئی کیپٹل گین(capital gains tax) ٹیکس نہیں۔ 7) اگر کوئی اسے ختم ہونے کی مدت سے پہلے بیچنا چاہتا ہے ، تو جب وہ بانڈ خریدتا ہے تو وہ ایکویٹی موڈ(equity mode) کا انتخاب کرکے ایسا کرسکتا ہے ۔ یعنی ، خریدا گیا ہر یونٹ این ایس ای/بی ایس ای(NSE/BSE) شیئر مارکیٹ میں فروخت کیا جا سکتا ہے اگر کوئی خریدار ہو۔ لہذا ، یہ اس قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے کہ خریدار (شیئر مارکیٹ کے ذریعے ) ادائیگی کے لیے تیار ہو ، یہ سونے کے موجودہ ریٹ سے کم یا زیادہ ہو سکتا ہے ۔ 7a) ٹیکس کا فائدہ موجود نہیں ہے اگر 5 سال سے پہلے فروخت ہو جائے ۔ 7. ب) جو شخص اسے شیئر مارکیٹ کے ذریعے خریدتا ہے اسے ٹیکس کا فائدہ ملے گا اگر وہ اسے 8 سال کی مدت کے اختتام تک رکھتا ہے ۔ 8) سرمایہ کار کو ہر سال 2.5٪ کا سود ادا کیا جاتا ہے ۔ یہ سادہ سود ہے جو ہر سال سرمایہ کاری کی گئی رقم پر شمار کیا جاتا ہے اور ششماہی ادا کیا جاتا ہے ۔ اگر نقطہ نمبر 8 "حلال پہلو" کے خلاف مرکزی دلیل ہے تو پھر اگر یہ رقم صواب کی نیت کے بغیر عطیہ کی جائے تو کیا یہ جائز ہے ؟

    جواب نمبر: 607489

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:186-131T/B-Mulhaqa=5/1443

     سوال میں خود مختار بانڈز کی جو تفصیل ذکر کی گئی ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ بانڈز خریدنے والے سے اگرچہ سونا کے نام پر رقم لی جاتی ہے ؛ لیکن حسی طور پر خریدار کا سونے پر کوئی قبضہ وغیرہ نہیں ہوتا، سونے کا ذکر درحقیقت جمع کردہ رقم پر سود ادا کرنے کا ایک ”معیار“ پیش کرنے کے لیے ہوتا ہے ؛ اس لیے یہ معاملہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے قرض پر سود کے لین دین کا ہے ، جس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں؛لہذا اس طرح کے بانڈز کی خریداری کی شکل میں سرمایہ کاری کرنا شرعا ناجائز وحرام ہے ۔

    یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَذَرُوا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُوسُ أَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (279) [البقرة: 275 - 279) لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربا، ومؤکلہ، وکاتبہ، وشاہدیہ، وقال:ہم سواء.(صحیح مسلم 3/ 1219) کل قرض جر منفعة، فہو ربا. (مصنف ابن أبی شیبة 4، رقم: 20690)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند