• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 607195

    عنوان: میڈیکل انشورنس کا کیا حکم ہے؟ 

    سوال:

    سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے تعلق سے کہ آج کل بیماریاں بہت عام ہورہی ہیں۔اور اس پر اخراجات بھی اتنا ہورہا ہے کہ اس کو برداشت کرتے ہو ئے قرض یا سود تک جانے کی نوبت آتی ہے ۔لہذا ایسی صورت میں ہم اپنی کمپنی کی طرف سے اپنے ملازمین کے لئے میڈیکل انشورنس کرانا چاہ رہے ہیں۔جس کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ کمپنی خود اپنے ہر ملازم کی طرف سے پچاس، پچاس ہزار رقم ادا کردیگا۔جس کے لئے اپنے ملازمین کی طرف سے کسی بھی طرح کا رقم وصول نہیں کریں گے ۔ اور انشورنس کمپنی فی ملازم اس رقم سے زائد یعنی دو لاکھ روپئے تک کی سہولیات فراہم کریگی۔اگر ملازم وہ رقم استعمال نہیں کیاہو تب بھی وہ رقم واپس نہیں ملے گا۔ ایسی صورت میں کیا ہم اپنے اسٹاف کی طرف سے انشورنس کا رقم ادا کرسکتے ہی؟ نیز اگر انشورنس کا رقم ٹیکس کے ذریعے ادا کرنے پر چھوٹ ملتا ہے ۔ کیا انشورنس کے لئے ٹیکس کا رقم استعمال کرسکتے ہیں؟ برائے مہربانی جواب مرحمت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔

    جواب نمبر: 607195

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 422-287/H=04/1443

     بیمہ (انشورنس) کا معاملہ سود وقمار پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ دونوں (سود و قمار) بنص قطعی حرام ہیں پس ان کا مجموعہ (انشورنس) بھی حرام ہے، ملازم خود اپنی ذاتی رقم دے کر یہ معاملہ کرے یا کمپنی ملازم کی طرف سے میڈیکل انشورنس کرائے نیز اس کے لئے خواہ ٹیکس کی رقم کا استعمال کریں بہرصورت یہ معاملہ سود و قمار ہی پر مشتمل ہوگا کہ جو ناجائز و حرام ہے۔ اگر آپ اپنے تمام ملازمین کو پچاس پچاس ہزار روپئے بغرض علاج معالجہ دیدیں تو امید ہے کہ تمام ملازمین کو انشورنس کے بجائے اس میں زیادہ خوشی ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند