• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 606598

    عنوان:

    کیا بینک کے توسط سے خریداری میں زائد رقم دینا‏، سود ہے؟

    سوال:

    سوال : پاکستان میں حکومت کی طرف سے ایک اسکیم شروع کی گئی ہے جس میں بنک کی مدد سے لوگوں کو گھر بنانے کے لیے قرضے دیے جا رہے ہیں جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ شہری پہلی کوئی جگہ پسند کرتا ہے پھر اسے خریدتا ہے جو کہ بنک کی زیر نگرانی ہو رہا ہوتا ہے اور جگہ کی رجسٹری بھی بنک کے پاس ہی ہوتی ہے جو کہ ایک مقررہ مدت تک وہ اپنے پاس رکھتا ہے جو کہ شہری کے پیسے واپس کرنے کی مدت پر منحصر ہے ۔اب جب شہری جگہ خرید لیتا ہے اور جب اس پر گھر بناتا ہے تو وہ بھی سب بنک کی زیر نگرانی ہو رہا ہوتا ہے ۔ اور اس سب عمل میں شہری نے جو رقم واپس کرنی ہوتی ہے وہ اصل قرض والی رقم سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جو کہ اس مدت پر منحصر ہے جو کہ شہری رقم واپس کرنے میں لگائے گا۔اگر مدت زیادہ ہوئی تو زیادہ پیسے واپس کرنے پڑیں گے اور اگر مدت کم ہوئی تو کم پیسے واپس کرنے پڑیں گے اور ان پیسوں کی زیادہ سے زیادہ واپس کرنے کی حد بیس سال پہلے سے مقرر ہے ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اس کو سود سمجھا جائے یا کہ کچھ شہری جو قرض لے رہے ہیں وہ اسے اس مکان کے کرایہ کی مد میں حلال قرار دے رہے ہیں۔مفصل جواب معہ حوالہ جات درکار ہے ۔

    جواب نمبر: 606598

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 257-204/H=03/1443

     اصل قرض سے زائد رقم جو شہری اداء کرے گا وہ شرعاً سود ہی ہے کہ جو حرام ہے، قرض کی تاویل کرلینے سے وہ معاملہ سود سے خارج نہ ہوگا، نہ ہی اس کی وجہ سے جائز قرار دیا جاسکتا ہے، زائد رقم کی واپسی کی شرط سود ہی تو ہے۔ ہو (الربوا) فی الشرع عبارة عن فضل مال لا یقابلہ عوض فی معاوضہ مال بمال (الفتاوی الہندیة: 3/117، الفصل السادس فی تفسیر الربوا واحکامہ فی کتاب البیوع)

    جو تفصیل آپ نے لکھی ہے وہ تو یہی ہے کہ بینک قرض کا معاملہ کرتا ہے اور پھر اس قرض پر سود لگاکر زیادہ رقم وصول کرتا ہے، اس میں کرایہ داری کا معاملہ کون کرتا ہے اور کس طرح کرتا ہے، اگر اس کی کچھ تفصیل لکھیں گے تو ان شاء اللہ مزید تفصیل کے ساتھ جواب لکھ دیا جائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند