• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 606022

    عنوان:

    بینک کے انٹریسٹ کا پیسہ مسجد اور مدرسہ کے بیت الخلاء میں استعمال کرنا

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں ایک شخص کی نوکری ہے اور اس نے اپنا پیسہ بینک میں جمع کر رکھا ہے اب جب کے اُس نے بہت دنوں کے بعد اپنا بینک ڈیٹیل چیک کیا تو اسے پتہ چلا کہ بینک میں انٹریسٹ کا پیسہ تقریباً ایک لاکھ روپیہ ہے تو کیا اس پیسہ کو نکال کر مسجد یا مدرسہ کے بیت الخلاء میں استعمال کر سکتے ہیں تفصیلی جواب مطلوب ہے۔ اگر پیسہ بینک میں چھوڑ دیں تو ڈر ہے کے اُس پیسے کو حکومت مسلمانوں کے خلاف غلط استعمال کرے گی۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 606022

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:44-47/L=2/1443

     بینک سے ملنے والی سودی رقم بینک میں نہ چھوڑی جائے؛ بلکہ اس کو بلانیتِ ثواب فقراء مساکین وغیرہ پر صدقہ کردیا جائے ، اسی طرح اگر وہ سودی رقم سرکاری بینک سے حاصل شدہ ہے تو اس کو انکم ٹیکس میں دینے کی بھی گنجائش ہے؛ البتہ سودی رقم سے مسجد یا مدرسہ کا بیت الخلاء بنوانا درست نہیں۔

    ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ اہ(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 6/ 385)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند