• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 605587

    عنوان:

    والدہ كے بینك اكاؤنٹ كا سود اپنے انكم ٹیكس میں بھرنا كیسا ہے؟

    سوال:

    سوال : میری والدہ کے دو سرکاری بینکوں میں اکاؤنٹ ہیں ان کا اب تک کا جو انٹرسٹ ہے کیا میں اس کو اپنے اوپر آئے ہوئے انکم ٹیکس میں جمع کرنے کی نیت کرکے انٹرسٹ کی رقم کو والدہ کے استعمال میں لایا جا سکتا ہے ؟

    جواب نمبر: 605587

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:890-706/N=12/1442

     آپ کی والدہ کے سرکاری بینک اکاوٴنٹ میں جو انٹرسٹ کی رقم آئی ہوئی ہے، اُس کی ذمہ داری انہی پر ہے، آپ پر نہیں ہے، اُن پر اگر انکم ٹیکس آتا ہے تو وہ اپنے انکم ٹیکس میں یہ رقم ادا کرسکتی ہیں یا اُس کے بہ قد ذاتی استعمال میں لا سکتی ہیں اگرچہ بہتر یہ ہے کہ بلا نیت ثواب غربا ومساکین کو دیدیں، آپ اُن کی اجازت کے بغیر اپنے انکم ٹیکس میں نہیں بھرسکتیں یا اپنے انکم ٹیکس کے بہ قدر ذاتی استعمال میں نہیں لاسکتیں، نیز محض آپ کی نیت سے آپ کی والدہ بھی اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لاسکتیں۔

    ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدقُ إذا تعذر الردُّ علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳،ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء……، قال:والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغَ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبةَ (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    أفتی بعض أکابرنا أن للمسلم أن یاخذ الربا من أصحاب البنک أہل الحرب في دارہم، ثم یتصدق بہ علی الفقراء ولا یصرفہ إلی حوائج نفسہ (إعلاء السنن، کتاب البیوع، أبواب بیوع الربا، باب الربا في دار الحرب بین المسلم والحربي، ۱۴:۳۷۲،ط: إدارة القرآن والعلوم الاسلامیة، کراتشي)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند