• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 605497

    عنوان:

    کیا سودی پیسے کے ذریعے قرض وصول کرسکتے ہیں

    سوال:

    امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے میرا سوال ہے کہ میں نے ایک صاحب کو قرض دیا اب وہ قرض واپس نہیں کر رہے ہیں قرض مانگنے پر وہ کہہ رہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہے تو کیا میں میں اپنا بینک کا انٹرسٹ انہیں دے کر اپنا قرض وصول کر سکتا ہوں برائے مہربانی اس کا جواب عنایت فرمائے جزاک اللہ خیرا کثیرا

    جواب نمبر: 605497

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:858-658/N=12/1442

     اگر آپ کا مقروض بینک کے انٹرسٹ کا مصرف ہے، یعنی: اُس کے پاس قرضے سے فارغ سونا، چاندی، کرنسی، مال تجارت یا حوائج اصلیہ سے زائد کسی بھی مال اور ساز وسامان میں سے چاندی کے نصاب کی مالیت نہیں ہے تو آپ بینک کا انٹرسٹ اسے دے کر اپنا قرض وصول کرسکتے ہیں، اور اگر وہ صاحب نصاب ہے تو اسے بینک کا انٹرسٹ دینا جائز نہ ہوگا۔

    ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدقُ إذا تعذر الردُّ علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ،۹: ۵۵۳،ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء……، قال:والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغَ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبةَ (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    أفتی بعض أکابرنا أن للمسلم أن یاخذ الربا من أصحاب البنک أہل الحرب في دارہم، ثم یتصدق بہ علی الفقراء ولا یصرفہ إلی حوائج نفسہ (إعلاء السنن، کتاب البیوع، أبواب بیوع الربا، باب الربا في دار الحرب بین المسلم والحربي، ۱۴:۳۷۲،ط: إدارة القرآن والعلوم الاسلامیة، کراتشي)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند