• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 605448

    عنوان:

    بیع سلم کی شکل میں ایک سودی معاملہ

    سوال:

    کوئی آدمی اس طرح معاملہ کرے کہ میں تجھے 800 روپئے ایک من کی قیمت پر 3,50,000 روپئے 10 ماہ کے لئے دیتا ہوں (۱) تو اس معاملہ میں شریعت کیا رہنمائی فرماتی ہے ؟ (۲) کیا اس طرح معاملہ کرنا صحیح ہے ؟ (۳)یہ معاملہ بیع سلم ہے یا قرض بالشرط ہے (۴)اور اس طرح کے معاملات بہت سارے علماء بھی کرتے ہیں۔

    جواب نمبر: 605448

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:966-647/SN=12/1442

     (1تا4) بیعِ سلم کا مطلب یہ ہے کہ کوئی سامان تمام تر اوصاف اور مقدار وغیرہ بتلاکر مستقبل کی کسی حتمی تاریخ میں حوالگی کی شرط پر خریدنا اور قیمت ِ سامان بہ وقت عقد ہی ادا کردینا، اس عقد کے تحت آئندہ طے شدہ تاریخ میں بائع پر ضروری ہوتا ہے کہ سامان ہی حوالہ کرے ، ایسا نہ ہو کہ اس وقت سامان کی مالیت کا اندازہ لگاکر قیمت حوالہ کی جائے اور بہ وقت سامان کا ذکر صرف برائے نام کیا جائے ، اس طرح کا معاملہ بیعِ سلم نہیں ہے؛ بلکہ سودی قرض ہے۔سوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ صورت مسئولہ میں سامان لینا دینا مقصودنہیں ہوتا ہے؛ بلکہ قرض دے کر آئندہ اضافہ کے ساتھ وصول کرنا ہوتا ہے،اگر واقعہ بھی یہی ہے تو اس طرح معاملہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے، یہ سودی لین ہے، جس پر شریعت میں سخت وعیدیں آئی ہیں ۔

    وہو فی اللغة: التقدیم والتسلیم وکذلک السلف.وہو فی الشرع: اسم لعقد یوجب الملک فی الثمن عاجلا وفی المثمن آجلا، وسمی بہ لما فیہ من وجوب تقدیم الثمن، وقال:کل ما أمکن ضبط صفتہ ومعرفة مقدارہ جاز السلم فیہ، وما لا فلا، وشرائطہ: تسمیة الجنس والنوع والوصف والأجل والقدر ومکان الإیفاء (سم) إن کان لہ حمل ومؤونة، وقدر (سم) رأس المال فی المکیل والموزون والمعدود، وقبض رأس المال قبل المفارقة إلخ (الاختیار لتعلیل المختار 2/ 34، باب السلم، الناشر: مطبعة الحلبی، القاہرة)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند