• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 605040

    عنوان:

    بینک CSP (کسٹمرسروس پوئنٹ) چلانا (جس میں صرف منی ٹرانسفر اور آدھار کاڑڈ کے ذریعے پیسے نكالنا ہوتا‏) درست ہے یا نہیں؟

    سوال:

    سوال : عزت مآب جناب حضرات مفتیان کرام صاحبان ، کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں سوال-: زید ایک دوکاندار ہے جو بینک CSP (کسٹمرسروس پوئنٹ) چلاتا ہے جس میں صرف منی ٹرانسفر اور آدھار کاڑڈ کے ذریعے نقد نکاسی کرتا ہے اس کے علاوہ ایسا کوئی کام نہیں کرتا ہے جسکا سود سے کوئی تعلق ہو مثلاً کسٹمر کو لَون دلانا یا لَون کا پیسہ وصولنا-یا لَون کے بارے میں لکھا پڑھی کرنا-یا لَون کے متعلق کسی کو کوئی مشورہ دینا وغیرہ- نہ بینک کے قبضہ میں کام کرتا ہے نہ بینک کی طرف سے تنخواہ ملتا ہے وہ باالکل آزاد ہے جب چاہے دوکان چالو کرے جب چاہے دوکان بند کرے کمپنی یا بینک کے طرف سے کوئی دباؤ نہیں ہے اور نہ ہی کمپنی کے طرف سے کوئی منافہ الگ سے ملتا ہے زید کو کمپنی کی طرف سے پہلی مرتبہ کچھ رقم کے بدلے (لائسنس کے طور پر) آئی-ڈی اور پاسورڈ ملتا ہے اِس کے علاوہ کوئی سروِس نہیں ملتی - کام کرنے کی کیفیت یہ ھیکہ زید کو مختلف ضروری آلات (جیسے کمپوٹر-پرنٹر-فِنگرڈیوائز-موبائیل فون-اِنٹرنیٹ-بِجلی بِل-دوکان کا کرایہ وغیرہ) خود اپنے پیسے سے خرید کر استعمال کرنا ہوتا ہے اور کچھ روپیہ انتظام کرکے پونجی کے طور پر ساتھ میں رکھنا پڑتا ہے اور اپنے آئی-ڈی کے مدد سے کسٹمر کے کھاتہ سے اپنے کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کرتا ہے اور اپنے پاس رکھے ہوے روپیہ کائش کی شکل میں کسٹمر کو دیتا ہے بعد میں اس پیسے کو کائش میں انتظام کرنے کیلئے مختلف بنکوں اور اے -ٹی-ایم مشینوں تک (سو- پچاس کیلو میٹر) بھاگم دَوڑی بھی کرنی پڑتی ہے ( کیونکہ ایک جگہ دو چار لاکھ روپیہ نہیں مل پاتا ہے ) جِسمیں اوقات-گاڑی-اور پیٹرول کا بھی استعمال ہوتا ہے اس کے علاوہ کچھ سالانہ فیس بھی ادا کرنا پڑتا ہے اِن تمام آلات اور محنت کے عوج میں زید کسٹمر سے ایک سو روپیہ پر ایک روپیہ چارج لیتا ہے اِس ایک روپیہ میں سے 5 فیصد تو انکم ٹیکس دپاڑٹمینٹ کو چلا جاتا ہے اور کچھ فیصد کمپنی چارج کاٹ لیتی ہے باقی کا بچا ہوا زید اپنے محنت کا مزدوری رکھتا ہے زید کیلئے یہ کمائی جائز ہے یا ناجائز ہے ایک آدمی کہتا ھیکہ یہ روپیہ سود میں شامل ہے جبکہ بنک یا کمپنی ایسی کمائی کو بزنس (تجارت) مانتی ہے لہٰذا شریعتِ اسلامیہ کے نظر میں ایسی کمائی صحیح ہے یا غلط مکمّل و مدلّل جواب تحریر فرماکرممنون و مشکورفرمائیں۔

    (نوٹ) اس مسئلہ کا جواب بہت سارے حضرات ہم سے طلب کئے ہیں اس لئے اخیر میں دعاء کے ساتھ نہایت ہی ادب و احترام سے گذارش کی جاتی ھیکہ اگر ممکن ہو تو مکمل سوال و جواب دارالافتاء کی لیٹر پیڈ پر دستخط و مہر کے ساتھ ای میل کردیں تو آپ حضرات کا ہم پر بہت بڑا احسان و کرم ہوگا تاکہ میں ان لوگوں کو اس کا پرنٹ نکال کر دے سکوں [email protected]

    جواب نمبر: 605040

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1260-3230T/H=11/1442

     اگر زید کے کاروبار میں لون (سود) کا لین دین کچھ نہیں نہ ہی سودی لین دین کی لکھا پڑھی سے اس کو کچھ سروکار ہے بس وہ اپنے گاہکوں (کسٹومرس) کے لئے ان کے کھاتوں سے پیسے نکلوانے اور گاہکوں کو کیش (نقد رقم) فراہم کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے اور اس میں جدوجہد نیز محنت مشقت کرتا ہے اس پر اپنی اجرت سو روپئے پر ایک روپیہ لیتا ہے تو یہ اجرت (زید کا کاروبار) جائز ہے۔ اس کا سو روپئے پر ایک روپیہ لینا یہ صورت مسئولہ میں نہ سود ہے نہ اس پر بزنس کی تعریف صادق آتی ہے؛ البتہ یہ زید کی اپنی بھاگا دوڑی اور جدوجہد کی اجرت ہے، جو شرعاً جائز ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند