• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 603295

    عنوان:

    مسجد كے بیت الخلاء یا دیگر رفاہی كاموں میں سود كا استعمال كرنا كیسا ہے؟

    سوال:

    شرعی احکام ملک کے نظام کے مطابق نافذ ہوتے ہیں لہٰذا - ملک کے نظام کے مطابق بات کی جائے تو ہندوستان میں بینک کا جو نظام ہے اسکے مطابق وہ ہر اکاؤنٹ ہولڈر کا پیسہ استعمال کرتا ہے اور جو پروفٹ ہوتا ہے اس کا کچھ حصہ انٹریسٹ کی شکل میں اکاؤنٹ ہولڈر کو دیتا ہے اب شرعی احکام کی بنیاد پر بات کی جائے تو اس رقم کا استعمال کہاں تک درست ہے جبکہ مسجد کی لیٹرین کی تعمیر میں لگانے کی اجازت ہے تو یہ بھی استعمال ضرورت پوری کرنے کے لیے ہی تو کیا جاتا ہے ۔ جنکی نوکری نہیں ہے اس وجہ سے کہ نوکری ملتی نہیں ہے جبکہ وہ کرنا چاہتے بھی ہیں اور جب مل جاتی ہے تو کرتے بھی ہیں اُن کے پاس کچھ رقم ہے جو بینک میں ہے ایسی صورت میں انٹریسٹ کی رقم استعمال کر سکتے ہیں کہ نہیں۔ کافی عرصے سے نوکری نہیں مل ر ہی ہے اور کب ملے گی یہ بھی پتہ نہیں۔ رہنمائی کریں۔ جزاک اللّہ خیر

    جواب نمبر: 603295

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 693-75T/B=07/1442

     ہندوستان میں جس قدر بینک پائے جاتے ہیں وہ سب غیر اسلامی بینک ہیں اس میں سود کا لین دین ہوتا ہے اکاوٴنٹ ہولڈر کو انٹریسٹ کی جو رقم ملتی ہے وہ سود ہے، اس کو اپنے استعمال میں لے آنا جائز نہیں۔ اس کا تصدق کرنا واجب ہے۔ جو لوگ مفلوک الحال یا لُٹے پٹے لوگ ہیں، یا قرضوں کے بار میں دبے ہوئے اور بہت پریشان حال ہیں، ایسے غربیوں پر بلانیت ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے، اسے مسجد کی یا مدرسہ کی لیٹرین میں لگانا جائز نہیں، یا اور کسی رفاہی کام میں لگانا جائز نہیں، کیونکہ اس میں ملکیت کی صورت نہیں پائی جاتی ہے۔ تصدق میں کسی غریب کو مالک بنانا ضروری ہے، جس کا پیسہ بینک میں جمع ہے اس کے لئے سود کا پیسہ اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند