معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 602711
بینک کے انٹریسٹ کا استعمال
شرعی احکام ملک کے نظام کے مطابق نافذ ہوتے ہیں اس بنیاد پر: ملک کے نظام کے مطابق بات کی جائے تو ہندوستان میں بینک کا جو نظام ہے اس کے مطابق وہ ہر اکاؤنٹ ہولڈر کا پیسہ استعمال کرتا ہے اور جو پروفٹ ہوتا ہے اس کا کچھ حصہ انٹریسٹ کی شکل میں اکاؤنٹ ہولڈر کو دیتا ہے اب شرعی احکام کی بنیاد پر بات کی جائے تو اس رقم کا استعمال کہاں تک درست ہے ؟
جواب نمبر: 602711
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:485-344/sd=7/1442
بینک میں رقم جمع کرنے کے بعد انٹرسٹ کے نام سے جو رقم ملتی ہے ، اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے ، اس رقم کو ثواب کی نیت کے بغیر غرباء کو دیدینا چاہیے ، شریعت کی رو سے اس پر سود کی حقیقت صادق آتی ہے ؛ کیونکہ بینک کے پاس گاہکوں کی ر قم کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے ، گویا قرض کی وجہ سے بینک سود دیتا ہے ، اسی کو شریعت میں سود کہتے ہیں ، بینک کا گاہکوں کے ساتھ کاروباری معاملہ نہیں ہوتا ہے ، وہ جمع شدہ رقم کو اپنے طور پر کاروبار میں لگاکر نفع کماتا ہے ، اسی وجہ سے بینک کاروبار کی تفصیلات وغیرہ گاہک کو نہیں بتاتا ہے ، تفصیل کے لیے دیکھیے : اسلام اور جدید معاشی مسائل، جلد ششم، ص: ۹۰ ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند