• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 601966

    عنوان: بینك كے توسط سے قسطوں پر گاڑی خریدنا؟

    سوال:

    میرا ارادہ گاڑی خریدنے کا ہے میری حیثیت ایک مشت گاڑی خریدنے کی رقم دینے کی نہیں ہے ،فنینینس کمپنی۔۔یا بینک آج کی بازاری قیمت سے بڑھا کر شرح سود لگا کر قسطوار زائد رقم لیتی ہے ، کیا میرے لیے اس طرح سے گاڑی خریدنا جائز ہے یا نا جائز؟نیز جو بھی جائز صورت ہو جواب مرحمت فرمائیں مہربانی ہوگی۔

    جواب نمبر: 601966

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:364-71T/N=5/1442

     آج کل مارکیٹ میں گاڑیوں کی قسطوں پر جو خرید وفروخت ہوتی ہے، اُس میں عام طور پر کسی بینک یا فائنانس کمپنی کا واسطہ ضرور ہوتا ہے اور بینک یا فائنانس کمپنی اپنے اصول کے مطابق ادھار کی مقدار اور قسطوں کی مدت کے مد نظر متعینہ انٹرسٹ لیتی ہے، یعنی: بینک یا فائنانس کمپنی ، خریدار کی طرف سے ، سامان فروخت کرنے والی کمپنی کو جو پیسہ نقد ادا کرتی ہے، وہ بینک یا فائنانس کمپنی کی طرف سے خریدار کے حق میں قرض ہوتا ہے اور بینک یا فائنانس کمپنی اُسی قرض پر متعینہ انٹرسٹ لیتی ہے ۔اور اسلام میں جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے؛ لہٰذا کسی بینک یا فائنانس کمپنی کے واسطہ سے ادھار قسطوں پرکوئی گاڑی وغیرہ خریدنا جائز نہ ہوگا؛

    البتہ اگر کسی شخص کے پاس گاڑی خریدنے کے لیے دیگر اخراجات سے زائد مطلوبہ مقدار میں رقم موجود ہو ؛ لیکن وہ ٹیکس ادا کردہ نہ ہو ، یعنی: حکومت کی نظر میں غیر قانونی ہو، جس کی بنا پر اگر نقد گاڑی خریدی جائے تو انکم ٹیکس کے حوالے سے متعلقہ محکمہ کی طرف سے مختلف پریشانیوں کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں محض انکم ٹیکس کے مسائل سے بچنے کے لیے بینک یا فائنانس کمپنی کے واسطے سے ادھار قسطوں پر گاڑی خریدنے کی گنجائش ہوگی؛ کیوں کہ یہاں بینک یا فائنانس کمپنی سے سودی قرض لے کر جو گاڑی خریدی جارہی ہے، اس کا بنیادی مقصد انکم ٹیکس کے مسائل سے بچنا ہے، جو دفع ظلم کی شکل ہے؛ لہٰذا اس صورت میں إن شاء اللّٰہ گناہ نہ ہوگا(دیکھئے: فتاوی نظامیہ اوندرویہ ۱: ۲۳۳، ۲۳۴، مطبوعہ: تھانوی آفسیٹ پرنٹرس ، دیوبند، مسائل سود، مرتبہ حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی دامت برکاتہم العالیہ ص ۲۴۴، ۲۴۵، مطبوعہ: حراء بک ڈپو، دیوبند)۔

    اور اگر کوئی خاص شوروم والا ، اپنے کسی دوست یا متعارف شخص کو ادھار قسطوں پر گاڑی فروخت کرے اور اُس میں کسی بینک یا فائنانس کمپنی کا واسطہ نہ ہو؛ بلکہ دکان کا مالک خود ادھار فروخت کرے اور خود ہی نقد رقم کی شکل میں یا بہ ذریعہ چیک وغیرہ اپنے اکاوٴنٹ میں قسطیں وصول کرے اور معاملہ کرتے وقت ادھار پیسوں کی قسطیں اور ان کی مدت وغیرہ سب متعین کرلی جائے تو اس طرح ادھار قسطوں پر گاڑی کی خرید وفروخت میں شرعاً کچھ مضائقہ نہیں؛ کیوں کہ اس صورت میں سودی قرض کا معاملہ نہیں پایا جاتا۔

    قال اللّٰہ تعالی:﴿وأحل اللّٰہ البیع وحرم الربا﴾ (سورة البقرة، رقم الآیة: ۲۷۵)۔

    عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: ”لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء“ (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸ - ۴۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۵: ۲۱۹ - ۲۲۳، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”کل قرض جر نفعًا حرام“: أي: إذا کان مشروطًا، کما علم مما نقلہ عن البحر وعن الخلاصة (رد المحتار، کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة، فصل في القرض، ۷: ۳۹۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۵: ۲۱۲، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    الفضل المشروط في القرض ربا محرم لا یجوز للمسلم أخذہ من أخیہ المسلم أبدًا، لإجماع المجتہدین علی حرمتہ، فلم یقل أحد منھم بجواز الفضل المشروط فی القرض(إعلاء السنن،رسالة کشف الدجی علی حرمة الربا، ۱۴:۵۳۳، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة، کراتشی)۔

    الربا ہو القرض علی أن یؤدي إلیہ أکثر أو أفضل مما أخذ (حجة اللّٰہ البالغة، الربا سحت باطل ۲:۲۸۲)۔

    وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا أو قال: إلی شہر بکذا وإلی شہرین بکذا فہو فاسد لأنہ لم یعاملہ علی ثمن معلوم ولنھي النبي صلی اللہ علیہ وسلم عن شرطین في بیع ․․․ وہذا إذا افترقا علی ہذا فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا حتی قاطعہ علی ثمن معلوم وأتما العقد علیہ فہو جائز لأنہا ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد (المبسوط للسرخسي،۱۳:۷،۸، ط: دارالمعرفة بیروت لبنان)۔

    ”المادة ۲۴۵“: البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح، ”المادة ۲۴۶“: یلزم أن تکون المدة معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط (مجلة الأحکام العدلیة مع شرحہا :درر الحکام لعلي حیدر، ۱:۲۲۷، ۲۲۸۔ط: دار عالم الکتب الریاض)۔

    أما الأئمة الأربعة وجہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموٴجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد (بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة، ۱:۷)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند