معاملات >> سود و انشورنس
سوال نمبر: 601462
سود کا پیسہ استعمال کرلے تو اس كی تلافی كی كیا صورت ہوگی؟
عبداللہ جس وقت صاحب نصاب نہیں تھا تب سود کا دس ہزار روپے اپنے کام میں خرچ کیا اب وہ اس سے توبہ کرنا چاہتا ہے. اگر عبداللہ اپنی حلال کمائی میں سے سود کی نیت سے دس ہزار روپے کسی غریب کو دے دیں اور توبہ بھی کریں تو تلافی ہو سکتا ہے؟ کس طرح وہ اپنے کئے کی تلافی کے گا؟ برائے مہربانی کوئی صورت بتائیں۔
جواب نمبر: 601462
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:297-79T/sn=5/1442
اگر عبد اللہ اپنی کمائی سے اتنی رقم کا صدقہ کردے تو بہت اچھا؛ لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تب بھی گنحائش ہے ؛ کیونکہ سودی رقم کا استعمال کسی مالدار اور صاحبِ نصاب شخص کے لیے توشرعا جائز نہیں ہے ؛ البتہ اگر کوئی شخص غریب (غیر صاحب نصاب) ہو اور وہ اپنے اکاؤنٹ سے ملنے والی یا کسی اور کی طرف سے دی ہوئی سودی رقم صدقہ کرنے کے بہ جائے ، اپنی ضروریات میں استعمال کرلے تو شرعا اس کی بھی اجازت ہے ۔
مستفاد: وفی الحاوی: غریب مات فی بیت إنسان ولم یعرف وارثہ فترکتہ کلقطة، ما لم یکن کثیرا فلبیت المال بعد الفحص عن ورثتہ سنین، فإن لم یجدہم فلہ لو مصرفا.[الدر المختار) (قولہ: ما لم یکن کثیرا) ذکر الضمیر علی تأویل الترکة بالمتروک والظاہر أن المراد بالکثیر ما زاد علی خمسة دراہم لما فی البحر عن الخلاصة والولوالجیة: مات غریب فی دار رجل ومعہ قدر خمسة دراہم فلہ أن یتصدق علی نفسہ إن کان فقیرا کاللقطة وفی الخانیة لیس لہ ذلک؛ لأنہ لیس کاللقطة. قال فی البحر والأول أثبت وصرح بہ فی المحیط(الدر المختار مع رد المحتار،6/444، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند)
(فینتفع) الرافع (بہا لو فقیرا وإلا تصدق بہا علی فقیر ولو علی أصلہ وفرعہ وعرسہ،(الدر المختار)(قولہ: فینتفع الرافع) أی من رفعہا من الأرض: أی التقطہا وأتی بالفاء، فدل علی أنہ إنما ینتفع بہا بعد الإشہاد والتعریف إلی أن غلب علی ظنہ أن صاحبہا لا یطلبہا، والمراد جواز الانتفاع بہا والتصدق، ولہ إمساکہا لصاحبہا. وفی الخلاصة لہ بیعہا أیضا وإمساک ثمنہا إلخ(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 6/ 438، کتاب اللقطة، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند